|

وقتِ اشاعت :   December 24 – 2017

حالیہ چند ہفتوں کے دوران پے درپے دہشت گردی کے کئی ایک واقعات پیش آئے جن میں پاکستان کے سیکورٹی افواج کے جوان شہید ہوئے۔ ایک روز قبل پاکستانی فوج کے تین جوان اس وقت شہید ہوئے جب افغانستان کی جانب سے ان کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ واقعہ مہمند ایجنسی میں پیش آیا۔ 

یہ جوان سرحدی علاقے میں تعمیرات میں مصروف تھے تب ان کو نشانہ بنایا گیا۔ جوابی فائرنگ سے پانچ دہشت گرد ہلاک اور 11زخمی ہوئے۔ فوجی حکام نے اس کی تصدیق کی ہے کہ جوابی فائرنگ سے پانچ ہلاکتیں ہوئیں۔ اس ماہ کے اوائل میں ایک اور دہشتگردانہ حملہ میں ایک فوجی افسر اور ایک جوان شمالی وزیرستان میں شہید ہوئے۔ دہشت گردوں نے ان کی گاڑی پر فائرنگ کی تھی۔

3 نومبرکو باجوڑمیں دہشت گردوں نے حملہ کیاجس ایک افسر اور ایک جوان شہید ہوا، چار دیگر جوان اس حملے میں زخمی ہوئے۔ اسی دوران فوج کے ترجمان نے کہا کہ پاکستان نے اپنے علاقے میں امن بحال کردیا ہے اور دہشت گردوں کو شکست دے کر ان سے علاقہ بھی خالی کروالیا ہے۔ 

سرحد کے اِس طرف دہشت گردوں کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔ اس طرح کے دہشت گردانہ حملے افغانستان سرحد سے جاری ہیں اور یہ اس کا ثبوت ہے کہ افغانستان کی سرزمین دہشت گرد استعمال کررہے ہیں اور وہ پاکستانی افواج اور شہریوں پر حملے کرتے رہتے ہیں۔ 

دوسری جانب افغان افواج اور بین الاقوامی فوج اس بات میں ناکام رہی ہے کہ وہ پاکستان پر اور قبائلی علاقوں پر دہشت گردانہ حملوں کو روکیں۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ بین الاقوامی فوج اور افغان فورسز کا اپنے علاقوں پر کنٹرول نہیں ہے۔ 

بعض تجزیہ نگار وں کا دعویٰ ہے کہ طالبان اور ان کے اتحادی افغانستان کے 60فیصد حصے پر قابض ہیں اور افغان حکومت کا بل تک محدود ہے ۔ امریکی نائب صدر کے دورہ کابل کے بعد حالات کی کشیدگی میں اضافہ ہورہا ہے۔ امریکی نائب صدر نے پاکستان کو دھمکیاں بھی دیں اور کہا کہ امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان میں مداخلت برداشت نہیں کریں گے۔

انہوں نے یہ الزام لگایا کہ پاکستان بعض طالبان گروہوں کی مدد کررہا ہے جو افغانستان میں موجود امریکی افواج کو نشانہ بنارہے ہیں اور افغانستان میں عدم استحکام کا باعث بن رہے ہیں۔ پاکستان نے ان تمام الزامات کی سختی سے تردید کی ہے اور یہ واضح کردیا ہے کہ پاکستان کی سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہورہی۔ 

امریکی نائب صدر کے الزامات غلط اور زمینی حقائق کے برعکسہیں۔ امریکی نائب صدر کے بیان کے بعد پورے خطے میں کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے جو ایک اچھی بات نہیں ہے۔ امریکہ کو عدل کا پیمانہ اپنانا چاہئے اور اسے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تلخی اور کشیدگی بڑھانے کی بجائے دوستی اور مفاہمت کو فروغ دینا چائیے اور خطے میں جنگی ماحول پیدا کرنے سے گریز کرنا چائیے۔ 

اس سے قبل امریکہ کے سیکریٹری خارجہ نے بھی اس قسم کی دھمکیاں دیں تھی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان اپنی سرزمین کھودے گا یعنی امریکہ افغانستان ا ور دیگر مخالف ملکوں کی مدد کرے گا تاکہ وہ پاک سرزمین کے بعض حصے ہتھیالیں۔ 

دوسرے الفاظ میں امریکہ پشتونستان تنازعے کو دوبارہ زندہ کرنا چاہتا ہے اور وہ افغانستان کو شہ دے گا کہ وہ پاکستان پر حملہ کرے اور پشتونستان کو آزاد کرائے۔بعض تجزیہ نگار سیکریٹری خارجہ کی دھمکی سے یہی مطلب نکالتے ہیں کہ امریکہ پاکستان پر حملہ کروانا چاہتا ہے اور اس حملہ کی پشت پر امریکہ خود ہوگا۔