|

وقتِ اشاعت :   December 25 – 2017

نوجوان بگٹی انجینئرز نے گزشتہ روز اسلام آباد نیشنل پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس میں یہ شکایت کی کہ او جی ڈی سی ایل انتظامیہ نے ان کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ ان بگٹی انجینئرز نے کہا کہ بعض امیدواروں نے ٹیسٹ اور انٹرویو میں حصہ بھی لیا مگر کسی کو بھی پیٹرولیم انجینئر کی ملازمت نہیں دی گئی۔ 

جب سے بلوچستان میں 1952سے گیس دریافت ہوئی ہے، اس وقت سے لے کر آج تک مقامی لوگوں کو صرف اور صرف چوکیدار اور چپڑاسی کی نوکری دی گئی۔ یہ کم ترین درجے کی ملازمتیں صرف مقامی بگٹی قبائل کے لیے مخصوص کردی گئیں،اردو یا پنجابی بولنے والا کوئی چپڑاسی یا چوکیدار نہیں ملے گا۔

ایک آدھ بڑے گھروں کے نوجوانوں کو چھوڑ کر، اعلیٰ عہدوں کو توچھوڑدیں عام چھوٹے افسری کے لیے بھی بلوچوں کو غیر موزوں قرار دیا گیا۔ گیس بلوچستان کی لیکن فائدہ اوروں کو۔گیس کے بڑے بڑے ذخائر اب بھی لوٹی، پیرکوہ، اوچ اور سوئی میں ہیں۔ 

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق جند ران میں جو بگٹی قبائل اور کھیتران کے سنگھم پر ہے، اس کے علاوہ زین کوہ میں بھی گیس کا بہت بڑا ذخیرہ دریافت ہوا ہے۔ کہنے کو توان کے مالک بلوچ ہیں مگر او جی ڈی سی ایل اور گیس کی دوسری کمپنیوں نے بلوچ قبائل پر روزگار کے تمام دروازے بند کردیئے ہیں ۔

اس امتیازی سلوک کا واحد علاج یہ ہے کہ گیس کی تمام سرکاری اداروں کو صوبوں بلوچستان اور سندھ کے حوالے کیے جائیں ،تمام گیس کمپنی کے مرکزی دفاتر فوراً بلوچستان منتقل کئے جائیں۔ 18ویںآئینی ترمیم کے بعد گیس اور تیل کا شعبہ صوبوں کو منتقل کیا جائے۔ 

صرف یہ دو ادارے سالانہ 200ارب سے زیادہ منافع کماتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کا بلوچستان میں ترقی کا حصہ صفر ہے۔ ان علاقوں میں گیس کی پیداواربڑے پیمانے پر جاری ہے لیکن لوگ مفلوک الحال ہیں۔ 

پانی، گیس، بجلی ان کو فراہم نہیں کی گئی بلکہ بلوچستان کے 29اضلاع قدرتی گیس سے اب تک محروم ہیں۔ پنجاب کے تقریباً ہر ایک گاؤں میں گیس کی فراوانی ہے جبکہ بلوچستان کے 29مکمل اضلاع اس سہولت سے محروم ہیں۔ 

جہاں تک میرٹ کی بات ہے کہ بلوچستان کا نوجوان سندھ اور پنجاب کا مقابلہ نہیں کرسکتا تو حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان کے نوجوانوں کو وہ تمام تر سہولیات مہیا نہیں ہیں جو پنجاب کے طلباء کو حاصل ہیں۔ 

وہاں بین الاقوامی معیار کی یونیورسٹیاں قائم ہیں اور ہمارے اسکولوں میں اساتذہ بھی دستیاب نہیں۔ ہم عام اساتذہ کی بات کرتے ہیں، عالم اور قابل اساتذہ کی نہیں۔ اس لئے جو بھی شخص میرٹ کی بات کرتا ہے اس سے بڑا منافق پوری دنیا میں نہیں۔ 

اس کی ذمہ دار حکومت ہے، یہ حکومت کا کام ہے کہ معیاری تعلیمی ادارے پورے ملک میں قائم کرے، صرف پنجاب اور کراچی میں نہیں بلکہ بلوچستان کے دور درز علاقوں میں بھی معیاری تعلیم کا انتظام کیا جائے اورپھر صوبوں کے نوجوانوں کے درمیان مقابلہ کرایا جائے۔ 

ہمارا یہ دعوی ٰ ہے کہ پھر بلوچستان کے نوجوان ہر مقابلے میں سرفہرست ہوں گے۔ اس لئے وزیراعظم اس معاملے میں فوری مداخلت کریں اور صوبائی اسمبلی ’’جعلی میرٹ‘‘ کے خلاف قررداد پاس کرے اور ایسے تمام اداروں کی مذمت کرے جو میرٹ کے نام پر بلوچ نوجوانوں سے فراڈ کرتے ہیں ان کو امتیازی سلوک کا نشانہ بناتے ہیں۔