|

وقتِ اشاعت :   January 1 – 2018

پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی سعودی عرب روانگی کے بعد اپوزیشن جماعتوں نے اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہاکہ غیروں کے دروازے کھٹکھٹانے کی بجائے پاکستان کو اپنے فیصلے خود کرنے چاہئیں۔ حزب اختلاف کی جماعتوں پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے اپنے اپنے پریس کانفرنسز میں کہا کہ ایک اور این آر او لینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے شریف برادران کے سعودی عرب جانے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قوم اب کی بار انتہائی غور سے دیکھ رہی ہے کہ وہ سعودی عرب کیوں گئے ہیں اورکس لیے گئے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف پہلے ہی سعودی عرب جا چکے ہیں اطلاعات کے مطابق نواز شریف بھی ہفتے کو سعودی عرب کے دورے پر روانہ ہو رہے ہیں۔

خورشید شاہ کا کہناہے کہ احترام کے ساتھ کہتا ہوں کہ محبت، عقیدے اور احترام کے حوالے سے سعودی عرب کا کوئی جوڑ نہیں ہے مگر پاکستان ایک جوہری ملک ہے، اس کا اپنا آئین ہے، اس کی اپنی پالیسی ہونی چاہیے، قانون کی بالادستی ہونی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنے فیصلے خود کرنے کی ضرورت ہے۔دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کی جانب سے تحریک چلائے جانے کا شدت سے انتظارتھاکہ وہ تحریک چلانے کے لیے نکلیں گے اور عوام ان سے حساب مانگے گی لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ وہ تو تحریک چلانے سعودی عرب جا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر ان کا یہ خیال ہے کہ انہیں کسی طرح کی چھوٹ مل جائے گی اور طاقتور ملک کو لوٹ کر این آر او لے لیں گے تو ایسا نہیں ہوگا۔گزشتہ دنوں بھی عمران خان نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ شہباز شریف کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ سعودیوں نے ان کے لیے جہاز بھیجا ہے لیکن ان کے اور شریف خاندان کے لیے بری خبر یہ ہے وہ جہاں چاہے جائیں مگر اس بار انہیں کہیں سے بھی این آر او نہیں ملے گا۔

این آر او کے بارے میں خورشید شاہ نے کہاکہ آج جو ہو رہا ہے وہ معافی تلافی کی طرف جاتا دکھائی دے رہا ہے ہر کوئی این آر او کا سوال کر رہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ماضی کے این آر او اور اس این آر او میں بہت فرق ہے، اگر اس قسم کی بات ہوگئی تو پھر ہمیں اپنے اداروں کو بڑے بڑے موٹے تالے لگانے پڑیں گے۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سیاسی ماحول سے لگ رہا ہے کہ ملک میں سال کا آغاز احتجاج ،دھرنوں سے کیاجائے گا جو کسی بھی حوالے سے نیک شگون نہیں کیونکہ ملک کو اس وقت سیاسی استحکام کی اشدضرورت ہے اور اپوزیشن جماعتیں اس میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔ مگر جس طرح سیاسی ماحول میں ہلچل دکھائی دے رہا ہے اور دوسری جانب لیگی قیادت سعودی عرب جارہی ہے جس سے ماحول میں کشمکش پیدا ہورہا ہے جو سیاسی درجہ حرارت کو مزید بڑھائے گا جس کے اثرات ملکی سیاست پر پڑینگے۔

اس سے قبل بھی پاکستان تحریک انصاف نے قبل ازوقت الیکشن کی بات کی تھی اب اسی معاملے کو آگے بڑھائے گی اور ایک بار پھر وفاقی دارالخلافہ میں عوامی ہجوم دکھائی دے گی اگرایسی صورتحال بن جاتی ہے تو یقیناًکنٹینر لگ جائینگے جس کے بعد کی صورتحال کے حوالے سے سیاسی تجزیہ کار اس بات کی بھی پیشنگوئی کررہے ہیں کہ تین سیاسی جماعتیں اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گی ان میں سے دو جماعتیں پہلے ہی احتجاج کی تیاری کرچکی ہیں ۔

جن میں پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک شامل ہیں۔ مگر اس بار زرداری بھی اس احتجاج کاحصہ بننے جارہے ہیں ۔ تین جماعتوں کا احتجاج اور دوسری جانب حکومتی حکمت عملی ملک کو کس ڈگر پر لے جائے گی، اس حوالے سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ بہرحال بڑھتے ہوئے سیاسی درجہ حرارت کو دیکھتے ہوئے یہ بات واضح ہے کہ نئے سال کا آغاز بھی احتجاج سے ہو گا مگر اس کا منطقی انجام کیا ہوگا یہ کہنا قبل ازوقت ہے۔