|

وقتِ اشاعت :   January 2 – 2018

کوئٹہ:  بلوچستان کی سیاست میں اچانک ہلچل مچ گئی۔ اتحادی جماعتوں کے کئی ارکان منحرف ہوگئے،اپنی ہی جماعت کے کئی ارکان باغی ہوگئے ۔

اتحادی جماعتوں کے ارکان نے حزب اختلاف کے ساتھ ملکر وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرادی۔

وزیرداخلہ بلوچستان سرفراز بگٹی سمیت دو وزراء نے مستعفی ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے جوابی وار کرتے ہوئے اپنے معاون خصوصی امان اللہ نوتیزئی کو عہدے سے برطرف کردیا۔

تفصیلات کے مطابق منگل کی صبح بلوچستان میں سیاسی فضاء میں اس وقت ہلچل مچ گئی جب مخلوط صوبائی حکومت میں شامل مسلم لیگ ق کے رکن صوبائی اسمبلی عبدالقدوس بزنجو نے بلوچستان اسمبلی سیکریٹریٹ میں وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع کرائی۔ اس موقع پر ان کے ہمراہ حکومت میں شامل جماعت مجلس وحدت مسلمین کے رکن صوبائی اسمبلی آغا سید رضا بھی تھے۔ تحریک عدم اعتماد پر اتحادی جماعتوں کے چھ منحرف ارکان سمیت مجموعی طور پر 14ارکان اسمبلی کے دستخط ہیں۔

حکومتی اتحادی جماعت مسلم لیگ ق کے پانچ میں سے چار ارکان صوبائی اسمبلی عبدالقدوس بزنجو، وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی عبدالکریم نوشیروانی ، وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی میرامان اللہ نوتیزئی، ڈاکٹر رقیہ سعید ہاشمی، حکومتی جماعت نیشنل پارٹی کے 11 میں سے ایک رکن خالد لانگو، حکومتی اتحادی جماعت مجلس وحدت کے واحد رکن آغا سید رضا، اپوزیشن جماعت جے یو آئی کے 8 میں سے چار ارکان عبدالمالک کاکڑ، خلیل الرحمان، شاہدہ رؤف، حسن بانو، اپوزیشن جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی کے دونوں ارکان اسمبلی سردار اختر مینگل ، حمل کلمتی، اپوزیشن جماعت اے این پی کے واحد رکن زمرک اچکزئی اور ایک آزاد رکن اسمبلی نوابزادہ طارق مگسی کے دستخط موجود ہیں۔

واضح رہے کہ بلوچستان اسمبلی 65 ایوان پر مشتمل ہیں جن میں مسلم لیگ ن کے ارکان اسمبلی کی تعداد21، پشتونخواملی عوامی پارٹی کے ارکان کی تعداد14، نیشنل پارٹی 11، جے یو آئی 8، مسلم لیگ ق 5،بی این پی مینگل 2، اے این پی، مجلس وحدت مسلمین، بی این پی عوامی کا ایک ایک رکن اور ایک آزاد رکن شامل ہیں۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری کو اس سے قبل 65 میں سے 52ارکان اسمبلی کی حمایت حاصل تھی۔

اپوزیشن جماعتوں کے ارکان کی مجموعی تعداد 12ہے جبکہ ایک رکن آزاد ہے۔ اب تین حکومتی جماعتوں کے چھ ارکان منحرف ہونے کے بعد تحریک عدم اعتماد کے حامیوں کی تعداد 19 تک پہنچ سکتی ہے۔ جبکہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کیلئے 33 ارکان کی ضرورت ہے۔

اتحادی جماعتوں میں پشتونخواملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی نے تحریک عدم اعتماد کی مخالفت اور وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری کی بھر پور حمایت کا اعلان کیا ہے۔ دوسری جانب وزیراعلیٰ کی اپنی جماعت مسلم لیگ ن کے کئی ارکان نے ساتھ دینا چھوڑ دیا ہے۔

ن لیگ سے تعلق رکھنے والے دو صوبائی وزراء اور ایک معاون خصوصی نے عہدوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہے۔ صوبائی وزیر ماہی گیری میرسرفراز چاکر ڈومکی نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیدیا ہے جبکہ وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی ایم پی اے پرنس احمد علی بھی تین روز قبل اپنے عہدے سے مستعفی ہوئے ہیں۔

وزیرداخلہ بلوچستان سرفراز بگٹی نے بھی ثناء اللہ زہری کا ساتھ چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ قریبی ذرائع کے مطابق سرفراز بگٹی آئندہ چند دنوں میں وزارت سے سے مستعفی ہوسکتے ہیں۔ اس طرح مسلم لیگ ن کے مزید کئی ارکان بھی منحرف ہوسکتے ہیں اس طرح تحریک عدم اعتماد کی کامیابی اور ناکامی کا امکان آدھا آدھا ہے۔ بلوچستان اسمبلی کی اسپیکر راحیلہ حمید درانی کا کہنا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کیلئے طریقہ کار موجود ہے۔ یہ سیاسی نظام کا حصہ ہے۔

قواعد و ضوابط کے مطابق تحریک عدم اعتماد کو ایک ہفتے میں نمٹانا ہوتا ہے۔ صوبائی اسمبلی سیکریٹریٹ میں تحریک عدم اعتماد جمع کروانے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ ق کے عبدالقدوس بزنجو اور مجلس وحدت مسلمین کے آغا سید رضا کا کہنا تھا کہ ہمارے بجٹ اور فنڈز کی تقسیم اور استعمال پر اختلافات ہیں۔

ملازمتوں سے متعلق بھی تحفظات تھے جنہیں یقین دہانیوں کے باوجود دور نہیں کیاگیا۔ ان کا کہنا تھا کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کیلئے مسلم لیگ ن سمیت تمام حکومتی و اپوزیشن جماعتوں کے ارکان سے رابطے کررہے ہیں۔

امید ہے کہ مزید لوگ بھی ہمارا ساتھ دینگے۔ صحافیوں کے اس سوال پر کیا کہ کیا تحریک عدم اعتماد کے پیچھے کوئی قوت ہے ، عبدالقدوس بزنجو کا کہنا تھا کہ ہمارے پیچھے کوئی قوت نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو انٹی اسٹیبلشمنٹ کیلئے مشہور بی این پی ہمارا ساتھ کیوں دیتی۔

دریں اثناء وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ نے جوابی وار کرتے ہوئے تحریک عدم اعتماد پر دستخط کرنیوالے اپنے معاون خصوصی برائے ایکسائز مسلم لیگ ق کے ایم پی اے امان اللہ نوتیزئی کو عہدے سے برطرف کردیا۔ محکمہ ایس اینڈ جی اے ڈی نے امان اللہ نوتیزئی کو معاون خصوصی کے عہدے سے ہٹانے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔