|

وقتِ اشاعت :   January 3 – 2018

پاکستان اور امریکہ کے تعلقات تاریخ میں پہلی بار کشیدگی کی انتہاء کو پہنچ گئے ہیں۔

امریکی صدرٹرمپ نے نئے سال کے آغاز پرایک انتہائی غیر معمولی پیغام جاری کیا جس میں انہوں نے غیر سفارتی زبان استعمال کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ نے 15سال کے دوران پاکستان کو 33ارب ڈالر کی امداد دی جبکہ دوسری جانب سے ہمیں صرف دھوکہ اور جھوٹ کے سوا کچھ نہیں ملا۔

اسلام آباد نے اس پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے فوری طور پر امریکی سفیر کو دفتر خارجہ میں طلب کیا گیااور صدر ٹرمپ کے بیان کی شدید مذمت کرتے ہوئے احتجاجی مراسلہ تھما دیا گیا۔ امریکی صدر کے بیان کے بعد وزیراعظم نے فوری طور پر وفاقی کابینہ اور قومی سلامتی کمیشن کا اجلاس طلب کرلیا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر پاکستان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ امریکہ نے گزشتہ 15 سالوں کے دوران اسلام آباد کو 33 ارب ڈالر امداد دے کر بے وقوفی کی۔ پاکستان نے امداد کے بدلے ہمیں جھوٹ اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں دیا کیونکہ وہ ہمارے رہنماؤں کو بیوقوف سمجھتا ہے۔

انہوں نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہ فراہم کرتا ہے جس سے افغانستان میں دہشت گردوں کو نشانہ بنانے میں مشکلات پیش آتی ہیں لیکن اب ایسا نہیں چلے گا۔امریکی سفیرڈیوڈہیل کو دفترخارجہ طلب کرکے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان پروضاحت مانگی گئی۔

امریکی سفیرکو پیر کے روز سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے طلب کیا اور صدر ٹرمپ کے پاکستان پر الزامات پر احتجاجی مراسلہ تھمایا ۔سیکر ٹری خارجہ کا کہنا تھا پاکستان نے دہشتگردوں کیخلاف بلاتفریق کارروائی کی ہے ،پاکستان کی قربانیوں کونظراندازکرناقابل افسوس ہے، دہشت گردی سے پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔

پاکستان میں امریکی سفارتخانے نے سفیر ڈیو ہیل کی دفتر خارجہ طلبی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے انہیں گزشتہ رات ملاقات کیلئے بلایا گیا تاہم یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ ملاقات میں کون سے امور زیر غورآئے۔وزیر اعظم کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس آج منگل اور نیشنل سکیورٹی کمیٹی کا اجلاس کل بدھ کوہوگا۔

وزیر اعظم کی زیر صدارت نیشنل سیکورٹی کمیٹی کے اجلاس میں وزیر خارجہ، وزیر داخلہ، وزیر دفاع، سروسز چیف، اور سینئر سول اور ملٹری افسران شرکت کریں گے جس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاکستان مخالف بیان غور کیا جائیگا۔

وفاقی وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ افغانستان میں اپنی ناکامی پر مایوسی کا شکار ہو کر ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان پر الزامات عائد کررہے ہیں، ٹرمپ کے نو مور کی کوئی حیثیت نہیں ہے، امریکہ نے پاکستان کے شہری علاقوں میں ڈرون حملے کی کوشش کی تو اس کا منہ توڑ جواب دیا جائیگا،امریکہ افغانستان میں فوجی طاقت کے بجائے طالبان کیساتھ مذاکرات کا راستہ اپنائے۔

وزیر خارجہ خواجہ آصف نے کہاکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاکستان سے متعلق ٹوئٹ پر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کیساتھ تبادلہ خیال ہوا، انہوں نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غلط بیانی سے کام لیا ہے ، ہم امریکہ کو ایک ایک پائی کا سرعام حساب دینے کیلئے تیار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے امریکہ کو بہت سے شعبوں میں سروسز فراہم کیں، پاکستان کے فوجی اڈے استعمال ہوتے رہے اور پاکستان سے نیٹو سامان کی ترسیل ہوتی رہی۔

انہوں نے کہا کہ ٹرمپ نے پاکستان کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فراہم کی جانیوالی سروسز کے معاوضے کو بھی امداد میں شامل کر لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم امریکہ کو پہلے ہی نو مور کہہ چکے ہیں، ہمارے بیان کے بعد ٹرمپ کے نومور کی کوئی اہمیت نہیں رہتی۔

وزیر دفاع خرم دستگیر نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاکستان پر الزامات پر اپنے رد عمل میں کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے امریکہ کو بلا معاوضہ خدمات فراہم کیں،پاکستان نے امریکا کو فوجی اڈے ، زمینی اورفضائی راستے فراہم کیے۔پاکستان کے تعاون سے 16سال میں القاعدہ کا خاتمہ کیاگیا۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف بے مثال تعاون پر پاکستان کو امریکا کی طرف سے بد اعتمادی ملی۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا بیان انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور خطے کو عدم توازن کی طرف لے جانے کی کوشش ہے اس بات پر سب ہی متفق ہیں کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بڑے پیمانے پر قربانی دی ہے۔

نائن الیون کے بعد پاکستان نے امریکہ کا اہم اتحادی ہوکر اپنا بھرپور کردار ادا کیا اور القاعدہ کی کمر توڑ دی مگر اس کے صلہ میں ٹرمپ کے بیانات سے واضح ہورہا ہے کہ امریکہ کے عزائم کچھ اور ہیں۔مگر دنیا اس بات کو بخوبی جانتی ہے کہ اس خطے میں امن قائم کرنے کیلئے پاکستان کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔

پاکستان کے بغیر خطے میں امن وامان کی بہتری ناممکن ہے۔ ٹرمپ کے بیان پر پاکستان کی جانب سے دوٹوک جواب دیا گیا ہے اور اس پر سیاسی وعسکری قیادت نے واضح پالیسی اپنائی ہے ۔ آنے والے دن انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جہاں ایک ٹھوس اور متفقہ حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔