|

وقتِ اشاعت :   January 9 – 2018

کوئٹہ: وزیراعلیٰ بلوچستان ثناء اللہ زہری صوبائی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش ہونے سے ایک گھنٹہ قبل اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔ گورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی نے ان کا استعفیٰ فوری قبول کرلیا۔ صوبائی کابینہ تحلیل کردی گئی۔

نواب ثناء اللہ زہری نے اپنے استعفے میں انتہائی مختصر عبارت لکھی ہے ۔ تین لائنوں کے استعفے میں میں کہا گیا ہے کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی شق 130(8)کے تحت آج 9جنوری کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دے رہے ہیں۔

وزیراعلیٰ بلوچستان نے استعفیٰ دینے سے قبل وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے مشاورت کی ۔ وزیراعظم نے انہیں عہدے سے مستعفی ہونے کا مشورہ دیا۔ وزیراعظم کے مشورے کے بعد انہوں نے اپنے اتحادی جماعت پشتونخواملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی سے بھی ملاقات کرکے مشاورت کی۔ جس کے بعد انہوں نے صوبائی اسمبلی اجلاس شروع ہونے سے صرف ایک گھنٹہ قبل گورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی سے ملاقات کرکے اپنا استعفیٰ پیش کیا۔

گورنر نے ان کا استعفیٰ منظور کرلیا۔ گورنر اور چیف سیکریٹری بلوچستان کی منظوری کے بعد محکمہ ایس اینڈ جی اے ڈی کے کیبنٹ سیکشن نے نوٹیفکیشن جاری کردیا۔ نوٹیفکیشن کے مطابق وزیراعلیٰ کے استعفے کے بعد بلوچستان کابینہ بھی تحلیل ہوگئی ہے۔

دریں اثناء تحریک عدم اعتماد پر بلوچستان اسمبلی کا خصوصی اجلاس اسپیکر راحیلہ حمید درانی کی صدارت میں ہوا۔ اجلاس ایوان کے14ارکان کی ریکوزیشن پر طلب کیا گیا تھا۔ اجلاس میں ارکان نے آئین کے آرٹیکل136اور بلوچستان اسمبلی کے قواعد و ضوابط 1974ء کے قاعدہ نمبر19(ب) کے تحت وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف عدم اعتماد کی قراردادنمبر109پیش کرنا تھی۔

تلاوت کلام پاک کے بعد اسپیکر راحیلہ حمید درانی نے کہا کہ نواب ثناء اللہ زہری نے آئین کے آرٹیکل130کے تحت وزارت اعلیٰ کے منصب سے استعفیٰ دیدیا ہے۔ گورنر بلوچستان نے ان کا استعفیٰ منظور کرلیا ہے اور اس حوالے سے نوٹیفکیشن بھی جاری کردیاگیا ہے۔ نواب ثناء اللہ زہری کے استعفے کے بعد تحریک عدم اعتماد کے محرکین کی طرف سے ق لیگ کے عبدالقدوس بزنجو نے تحریک عدم اعتماد واپس لینے کا اعلان کیا۔

اس موقع پر اپوزیشن لیڈر مولانا عبدالواسع نے نواب ثناء اللہ زہری کے استعفے کو جمہوریت کی فتح قرار دیا۔ مولانا عبدالواسع نے کہا کہ نواب ثناء اللہ زہری ہمارے لئے قابل احترام ہیں انہوں نے استعفیٰ دے کر جمہوری راستہ اپنایا ہے۔ ہم صوبے میں قبائلی روایات اورسیاسی اقدار کی پاسداری کرینگے۔جس کے بعدصوبائی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردیاگیا۔

یاد رہے کہ وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے والے مسلم لیگ (ن) کے ناراض ارکان اسمبلی کو منانے کیلئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ہنگامی دورے پر کوئٹہ بھی آئے ۔ ان کے ہمراہ احسن اقبال بھی تھے لیکن وہ ناراض ارکان کو منانے میں ناکام ہوگئے تھے۔

وزیراعلیٰ بلوچستان ثناء اللہ زہری کے خلاف دو جنوری کو ، ن لیگ ، ق لیگ اور اپوزیشن تعلق رکھنے والے ارکان نے صوبائی اسمبلی سیکریٹریٹ میں تحریک عدم اعتماد جمع کرائی تھی جس پر صوبائی اسمبلی کا اجلاس نو جنوری کو طلب کیا گیا تھا۔

مسلم لیگ ن کے21میں 13، جمعیت علمائے اسلام کے 8، ق لیگ کے 5، بی این پی مینگل کے2، بی این پی عوامی، نیشنل پارٹی، اے این پی ،مجلس وحدت مسلمین کے ایک ایک رکن اور ایک آزاد رکن طارق مگسی نے حمایت کی تھی۔

دریں اثناء بلوچستان کے مستعفی ہونے والے وزیراعلیٰ و مسلم لیگ(ن) بلوچستان کے صدر و چیف آف جھالاوان نواب ثناء اللہ خان زہری نے کہاہے کہ زبردستی اقتدار سے چمٹے رہنامیرا شیوہ نہیں مجھے طاقت اور اقتدار اسمبلی نے دیا ہے مجھے محسوس ہورہاہے کہ کافی تعداد میں اسمبلی کے اراکین میری قیادت سے مطمئن نہیں ہیں اس لئے میں ان پر زبردستی مسلط نہیں ہونا چاہتا اقتدار آنے جانے چیز ہے اللہ تعالی نے موقع دیا اور عوام نے مناسب سمجھا تو میں اپنے عوام کی خدمت جاری رکھوں گا ۔

یہاں جاری ہونے والے اپنے ایک بیان میں نواب ثناء اللہ خان زہری نے کہا کہ دو ہفتے سے صوبے میں سیای حالات میں بہت تیزی آئی ہے اس میں خاص طور پر چند ساتھیوں کی جانب سے میرے خلاف عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا ہم نے ہرممکن کوشش کی کہ انکے تحفظات کو دور کریں ہمارے ساتھیوں نے بھی بھر پور کوشش کی ہماری پارٹی کی مرکزی قیادت وزیراعظم پاکستان بھی کل کوئٹہ آئے لیکن بدقسمتی سے ہم کامیاب نہ ہوسکے ۔

انہوں نے کہاکہ میں نے پچھلے دو سال کے عرصے کے دوران ہرممکن کوشش کی کہ نہ صرف اتحادی جماعتوں کو ساتھ لیکر چلوں بلکہ اپوزیشن کی جماعتوں کو بھی آن بورڈ رکھا اکثر سرکاری تقاریب میں اپوزیشن لیڈر بھی میرے ساتھ ہوا کرتے تھے جس پر میڈیا کو خوشگوار حیرت ہوا کرتی تھی ۔

انہوں نے کہاکہ سیاسی عمل کیساتھ ساتھ اس دوران ہم نے بھر پور کوشش کی کہ صوبہ میں حکومتی عملداری قائم کریں اور صوبے میں امن بحال کریں اللہ کا شکرہے کہ آج صوبے میں امن وامان کی حالت بہت بہتر ہے اور اسکی گواہی آپ سے بہتر کوئی نہیں دے سکتا میں تمام متعلقہ اداروں خاص طورپر بلوچستان پولیس ،فرنیٹئر کور بلوچستان ،لیویز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کا مشکور ہوں کہ انہوں نے دن رات محنت کی اور ہمارے بچوں کے مستقبل کو بچایا ۔

انہوں نے کہاکہ ہم نے پہلی دفعہ اپنے ترقیاتی پروگرام میں اپنے شہروں خاص طورپر ڈویژنل اور ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز کی بہتری پر توجہ دی اور اس کیلئے خطیر رقم مختص کی اور یہ رقم اپنے سیاسی دوستوں کی ترجیحات کی بجائے متعلقہ کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کو اس کا ذمہ دار مقرر کیا تاکہ ہم پر اور ہمارے سیاسی دوستوں پر یہ الزام نہ آئے کہ ہم ترقی مخالف ہے اور مجھے خوشی ہے کہ ان دوسالوں میں صوبے کے ہر ضلع میں ترقیاتی عمل نظر آرہاہے ۔

میں زیادہ تفصیل میں نہیں جانا چاہتا آپ خود متعلقہ اداروں سے اس دور کے ترقیاتی کاموں کی تفصیل معلوم کرسکتے ہیں ۔نواب ثناء اللہ زہر ی نے کہاکہ یقیناًمخلوط حکومت چلانا اتنا آسان نہیں ہوتا اگر چہ ہم اکثریتی جماعت تھے لیکن پھر بھی ہم نے کوشش کی کہ سب کو ساتھ لیکر چلیں میں خاص طورپر اپنے کولیشن پارٹنزز کا شکر گزارہوں کہ انہوں نے میرا بھر پور ساتھ دیا ۔

انہوں نے کہاکہ سیاست میں آپ کی طاقت اپنے ساتھی ہوتے ہیں اگر وہ ساتھ چھوڑ دیں تو پھر زبردستی اقتدار سے چمٹے رہنا میراشیوہ نہیں مجھے طاقت اور اقتدار اسمبلی نے دیا ہے مجھے محسوس ہورہاہے کہ کافی تعداد میں اسمبلی کے اراکین میری قیادت سے مطمئن نہیں ہیں ۔

اس لئے میں ان پر زبردستی مسلط نہیں ہونا چاہتا اقتدار آنے جانے چیز ہے اللہ تعالی نے موقع دیا اور عوام نے مناسب سمجھا تو میں اپنے عوام کی خدمت جاری رکھوں گا لیکن میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے صوبے کی سیاست خراب ہوں اس لئے میں وزارعت اعلی کے عہدہ سے مستعفی ہورہاہوں میری خواہش ہے کہ صوبے میں سیاسی عمل جاری رہے اور صوبہ آگے بڑھیں آپ سب کا شکر گزارہوں کہ آپ نے ہر مشکل میں میرا ساتھ دیاا للہ تعالی ہم سب کا حامی وناصر ہوں ۔