|

وقتِ اشاعت :   January 9 – 2018

کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر مولانا عبدالواسع، منحرف ارکان اسمبلی سرفراز بگٹی ، عبدالقدوس بزنجو اور عدم اعتماد تحریک کے حامی دیگر ارکان کا کہنا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کو کامیاب کرایا جائیگا، کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائیگا، گورنر کیا صدر اور وزیراعظم کے عہدے کی پیشکش ہو بھی تو فیصلے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے ۔

تحریک عدم اعتماد کو غیر جمہوری عمل کہنا غلط ہے ۔ قوم پرست جماعتوں نے چار سال تک صوبے کا جو بیڑہ غرق کیا ہے ۔صوبے کے 200ارب روپے لیپس کردیئے گئے ۔

یہ بات انہوں نے پیر کو اپوزیشن چیمبر میں پرہجوم پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی ۔

پریس کانفرنس سے اپوزیشن لیڈر مولانا عبدالواسع ،سابق وزیرداخلہ سرفراز بگٹی، مسلم لیگ ق کے رکن صوبائی اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو ،عوامی نیشنل پارٹی کے رکن زمرک خان اچکزئی نے خطاب کیا۔

اس موقع پر اراکین صوبائی اسمبلی سابق وزیراعلیٰ جان محمد جمالی ،میر ماجد ابڑو ،طاہر محمود ،مفتی گلاب اورمولوی معاذ اللہ بھی موجود تھے۔

مولاناعبدالواسع نے کہاکہ تحریک عدم اعتماد جمہوری عمل کا حصہ ہے اور یہ ضرور کامیاب ہوگی۔ بلوچستان میں جمہوری طریقے سے تبدیلی لائی جارہی ہے تو یہ اچھی بات ہے۔

اس عمل کو سازش کہنے والوں کے دماغ میں بیماری ہے۔ مولانا عبدالواسع نے کہا کہ کہ اپنے اقتدار کو ڈوبتے دیکھ کر حکمران اب صرف سازش سازش کا ورد کررہے ہیں۔

نواز شریف کی زبان پر صرف دو باتیں ہیں سازش ہورہی ہے اور مجھے کیوں نکالا۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان حکومت نے چار سال سے فنڈز روک رکھے تھے۔ اربوں روپے کے فنڈز لیپس ہورہے تھے۔ عوام کے حقوق سلب کئے گئے تھے۔

اب تحریک عدم اعتماد سامنے آنے پر بلوچستان کے ہر شخص کے چہرے پر خوشی کے اثرات ہیں۔

انہوں نے کہاکہ بلوچستان کی تمام سیاسی جماعتیں اور حکومتی واپوزیشن اراکین اس بات پر متفق ہوئے کہ موجودہ کرپٹ حکومت کو ختم کرنے کیلئے ایک مضبوط اور منظم اتحاد کرینگے اور اب موجودہ حکومت کو بچانا اتحادیوں کی بس کی بات نہیں ہے کیونکہ اتحادیوں نے ہی وزیراعلیٰ کے خلاف حکومتی اراکین کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کیا ایک جمہوری اور آئینی عمل ہے ۔

کیونکہ اپوزیشن پہلے ہی صوبائی حکومت کے خلاف تھی اور اپوزیشن نے شروع دن سے حکومت کی کمزوریوں کی بات کی سب سیاسی جماعتیں اس بات پر متفق ہے اور حکومتی اراکین موجودہ حکومت کے خلاف میدان عمل میں ہے تو اپوزیشن نے بھی ان کا ساتھ دیا ہے ۔

قوم پرست کہہ رہے کہ یہ غیر جمہوری عمل ہے مگر ان قو م پرستوں سے کہنا چا ہتا ہوں کہ جب نواب محمد اسلم رئیسانی کے حکومت کو ختم کیا جا رہا تھا اور گورنر راج نافذ کیا گیا تو اس وقت مٹھائیاں تقسیم کی گئی اور جلسوں میں کہا گیا کہ ایک جمہوری حکومت کو غیر جمہوری طریقے سے ختم کیا گیا ۔

اب تمام سیاسی جماعتیں ان قوم پرستوں اور حکومت میں شامل اتحادیوں سے پو چھنا چا ہتی ہیں کہ اس وقت ایک جمہوری اور آئینی حکومت کی برطرفی پر مٹھائیاں تقسیم کرنے والے آج کس جمہوریت کی بات کر رہے ہیں۔

موجودہ حکومت نے وفاق سے بلوچستان کے حقوق پر بات تک نہیں کی بلکہ این ایف سی ایوارڈ پر ساڑھے چارسال تک خاموشی اختیار کئے رکھی ۔انہوں نے کہا کہ حکومت میں شامل دو قوم پرست جماعتوں کے کرتوت سب کے سامنے عیاں ہیں ۔

انہوں نے نہ جمہوریت کا پاس رکھا نہ عوام کا فائدہ کیا بس اپنی کرپشن کا بازار گرم کئے رکھا انہوں نے کہاکہ ہم پر الزام لگائے جارہے ہیں کہ اس سازش میں مولانا فضل الرحمن کا کردار ہے یا ہم مراعات کی خاطر یہ سب کررہے ہیں۔

ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ نہ تو ہم کسی سازش کا حصہ ہے نہ ہم نے کوئی مراعات لی ہیں ساڑھے چار سال سے دھرنوں ،احتجاجوں سے وفاقی حکومت کو مولانا فضل الرحمن نے بچایا ہے اگر وہ نہ ہوتے تو یہ حکومت چار دن بھی نہیں چلتی ۔

انہوں نے کہاکہ پشتونوں اور بلوچوں کے صوبے کے دو سو ارب روپے کے فنڈ ز لیپس کئے گئے برادر اقوام میں نفرت کا بیج بویاگیا دونوں قوم پرست جماعتیں صوبے کی عوام سے مخلص نہیں ۔

انہوں نے کہاکہ موجودہ حکومت نے اربوں روپے کے فنڈزمیں خرد برد کی ہے یہاں تک کے وزیرداخلہ بھی بے اختیار تھا انہوں نے کہاکہ مجھے کیوں نکالا پوچھنے والوں کے سوال کا جواب آئین اور قانون ہے جس نے انہیں نکالا ہے ہمیں وزیراعظم ہاؤس ،وزیراعلیٰ ہاؤس اورچیف سیکرٹری سے بھی فون آئے ہیں لیکن ہم نے کسی سے بھی ملنے سے معذرت کرلی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ افواہ پھیلائی جارہی ہے کہ جمعیت نے ڈیل کے بدلے گورنر کا عہدہ مانگا ہے ۔

جمعیت کا ماضی گواہ ہے کہ جب ایک بار فیصلہ کرلے تو پھر پیچھے نہیں ہٹتی۔ اس موقع پر گورنر کیا صدر اور وزیراعظم کے عہدے کی پیشکش کی جائے تو بھی فیصلے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

عوامی نیشنل پارٹی کے رکن زمرک خان اچکزئی نے کہاکہ مجھے صبح سے دو بار فون آچکا ہے کہ آپ آئے اور وزیراعظم سے ملیں۔ میں نے انہیں ایک ہی جواب دیا کہ ساڑھے چار سال تک یہ وزیراعظم کہاں تھے یہ بلوچستان کا اندرونی معاملہ ہے بہتری اسی میں ہے کہ وفاق یا مرکز اس میں مداخلت نہ کریں ۔

ہمیں انہیں ساڑھے چار سال یاد نہیں آئے اب ہمیں بلایا جارہا ہے۔ ہم وزیراعظم سے نہیں ملیں گے۔ عوامی نیشنل پارٹی جمہوری اصولوں کی پاسداری پر یقین رکھتی ہے اور ہم نے ہمیشہ ملک میں جمہوریت کی بالادستی اور آئین کی حکمرانی کیلئے جدوجہد کی ہے یہاں کے مسائل یہاں کے سیاسی جماعتیں ہی حل کرینگے۔

مسلم لیگ ق کے رکن میر عبدالقدوس بزنجو نے کہاکہ دو سال سے ڈپٹی اسپیکر کا عہدہ خالی ہے اسمبلی کی تمام کاروائی غیر آئینی تصور ہوگی چاکر خان یونیورسٹی کو صرف اس وجہ سے شروع نہیں کیا جارہاہے کہ کیونکہ اس کے نام کا مسئلہ ہے ۔

پشتونخواملی عوامی پارٹی تین سال سے انٹراپارٹی الیکشن نہیں کروارہی اور جمہوریت کے نعرے لگاتے ہیں ہم نے مرکز کو پہلے ہی آگاہ کردیا تھا کہ نواب صاحب کی حکومت نہیں چل سکتی کیونکہ اس میں معاملات بالکل منجمد ہوگئے ہیں ۔

مسلم لیگ (ن) کے رکن سابق وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی نے کہاکہ وزیراعلی نواب ثناء اللہ خان زہری نے اپنے دور حکومت کا 76فیصد وقت صوبے سے باہر گزارا ہم نے انہیں بہت بار روکا بھی مگر وہ بات نہیں مانتے تھے اب ہمارے ساتھ چالیس ہم خیال اراکین کی حمایت ہے اور مزید بھی آئیں گے ۔

جلد ہیوی ویٹ استعفیٰ بھی آنیوالا ہے اب تک جتنے بھی دعوے کئے ہیں وہ سچ ہوئے ہیں اور آگے بھی ہونگے موجودہ کہو ںیا سابق وزیراعلی بلوچستان کا جانا اب طے ہوچکا ہے ۔