|

وقتِ اشاعت :   January 10 – 2018

کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی میں متحدہ اپوزیشن کے رہنماؤں مولانا عبدالواسع، سردار اختر جان مینگل اور دیگر نے کہا ہے کہ حزب اختلاف کی جماعتیں بلوچستان کی نئی حکومت کا حصہ نہیں بنیں گی، وزیراعلیٰ کیلئے اکثریتی لیگی ارکان کے نامزد کردہ امیدوار کی حمایت کرینگے۔

اسمبلیوں کو کوئی خطرہ نہیں ، کسی غیر جمہوری عمل کی حمایت نہیں کی جائے گی۔ یہ بات انہوں نے بلوچستان اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر کے چیمبر میں مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی۔

اس موقع پر عوامی نیشنل پارٹی کے انجینئر زمرک خان اچکزئی ، آزاد رکن اسمبلی نوابزادہ طارق مگسی اوربی این پی عوامی کے سنےئر نائب صدر سید احسان شاہ نے پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔

پریس کانفرنس میں بی این پی کے مرکزی رہنماء سینیٹر ڈاکٹر جہا نزیب جما لد ینی،رکن قومی اسمبلی حاجی عثما ن بادینی ، ارکان صوبائی اسمبلی خلیل الرحمن دمڑ ،مولوی معاذاللہ ،میر ظفر زہری ،میر حمل کلمتی ،مفتی گلاب کاکڑ ودیگر بھی موجود تھے ۔

مولانا عبدالواسع نے کہا کہ ہم نے مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ (ق) اور اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ملکر پہلا مرحلہ خوش اسلوبی سے طے کر لیا ہے ۔

آج ہم نے متحد ہ اپوزیشن کا اجلاس بلایا جس میں مشاورت کے بعد فیصلہ ہوا ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی رکن وزیراعلی کا امیدوار نہیں ہے اور نہ ہی ہم حکومت میں شامل ہوں گے ۔

انہوں نے کہا کہ حکومت بنا نے کے لئے تحریک عدم اعتماد میں ہمارا ساتھ دینے والی اکثریتی جما عتوں کو اختیار دیں گے وہ جسے بھی نامزد کریں ہم اس فیصلے کو قبول کریں گے اور حکومت سازی میں ان کی مدد کریں گے ۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن مستقبل میں بھی اپنا مثبت کردار ادا کرے گی اگر کوئی غیر جمہوری عمل ہوا توہم اسی وقت آئندہ کا لائحہ عمل طے کرینگے ۔

مولانا عبدالواسع نے کہاکہ متحدہ اپوزیشن میں تیرہ ارکان اسمبلی موجود ہیں جبکہ دیگر جماعتوں کے پاس 20سے زائد ارکان ہیں ۔

وزاارت اعلیٰ کے امیدوار کیلئے 33ووٹ ضروری ہیں ۔ اپوزیشن کی حمایت کے بعد انہیں حکومت بنانے میں کوئی مشکل نہیں پیش آئے گی ۔

انہوں نے کہاکہ ہمیں وزیراعلیٰ کے نام پر کسی اختلاف کا علم نہیں ہے ہم اصولوں کی سیاست اور پاسداری کرتے ہیں وزارتوں کے شوقین نہیں ۔

سینیٹ کے انتخابات میں ابھی وقت ہے جب انتخابات ہونگے تب ہی بتاسکتے ہیں کہ کس سے اتحاد کرینگے تاہم جیسے ہم نے دیگر مرحلے اتفاق اوراتحاد سے طے کئے ہیں سینیٹ کے انتخابات بھی ایسے ہی ہونگے ہم نے بلوچستان کے مسائل کا حل اتفاق اور اتحاد سے نکالنا ہے ۔

ہمارے علم میں نہیں کہ یہ اسمبلی توڑنے کیلئے سازش کا پہلا مرحلہ ہے یہ سوال آپ عمران خان ،آصف زرداری ،طاہر القادری سے پوچھیں جو کھلے عام کہتے ہیں کہ سینیٹ انتخابات نہیں ہونے دینگے ۔

اس موقع پر بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل نے کہاکہ متحدہ اپوزیشن جماعتوں کی مشاورت سے حکومت کا حصہ نہ بننے کافیصلہ کیاگیاہے ۔جسے بھی اکثریت ملے گی ہم ایوان میں کے ساتھ تعاون کرینگے ۔

ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ جس شخص کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی ہے ان کو واپس کیسے لاسکتے ہیں ۔انہوں نے کہاکہ ہم کسی کی خواہش کا حصہ نہیں بن سکتے ۔

سیاست مفروضوں پر نہیں چلتی سیاست میں زمینی حقائق دیکھے جاتے ہیں ۔ہم اپوزیشن میں اپنی مدت پوری کرنا چاہتے ہیں تاکہ حکومت کی طرح ہم بھی آدھے وقت میں اپنی مدت پوری کئے بغیر فارغ نہ ہوجائے ۔

عوامی نیشنل پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی انجینئر زمرک خان اچکزئی نے کہاکہ ہماری تحریک کو کمزور بنانے کیلئے یہ پراپیگنڈہ کیا گیا تھا کہ سینیٹ انتخابات کو سبوتاژ کرنے کیلئے تحریک عدم اعتماد پیش لائی گئی ہے تحریک سے قبل ہی وزیراعلی نے استعفیٰ دے دیا ۔

یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ سینیٹ انتخابات کو سبوتاژ کرنے کیلئے یہ سب کیا گیا ۔عوامی نیشنل پارٹی جمہوریت کیساتھ کھڑی ہے اور آئندہ بھی کھڑی رہے گی ۔

آزاد رکن اسمبلی نوابزادہ طارق مگسی نے کہاکہ اگر کوئی رکن اسمبلی یہ الزام لگا رہاہے کہ کرپشن ہوئی اور سینیٹ انتخابات نہیں ہونگے تو وہ سامنے آئے اورثبوتوں کیساتھ بات کریں ۔

بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی ) کے مرکزی سینئر نائب صدر سید احسان شاہ نے کہاکہ حکومت کی شروع دن سے کارکردگی بہتر نہیں رہی جس کی وجہ سے اسکے اپنے اراکین اسکے خلاف تحریک عدم اعتماد لائے اپوزیشن کی کامیابی کے بعد یہ بات ثابت ہوگئی کہ موجودہ حکومت ڈیلیور کرنے میں ناکام رہی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ کہ سینیٹ کے انتخابات بہت دور ہے اس لئے موجودہ صورتحال کو سینیٹ انتخابات سے نہ جوڑا جائے۔