|

وقتِ اشاعت :   January 16 – 2018

سپریم کورٹ نے سانحہ کوئٹہ پر از خود نوٹس کیس کا تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے اٹارنی جنرل پاکستان کی فیصلے سے سابق وزیر داخلہ کا نام حذف کرنے کی استدعا مسترد کردی۔

خیال رہے کہ اس سے قبل 8 جنوری کو سماعت کو دوران سپریم کورٹ نے سانحہ کوئٹہ از خود نوٹس کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید کھوسہ نے پانچ صفحات پر مشتمل فیصلہ تحریر کیا۔

فیصلے کے مطابق اٹارنی جنرل کی جانب سے سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار کے خلاف کمیشن رپورٹ کے مشاہدے کو حذف کرنے کی استدعا کی گئی تھی جسے مسترد کردیا گیا۔

فیصلے میں بتایا گیا کہ سانحہ کوئٹہ پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی رپورٹ سپریم کورٹ کا حکم نامہ نہیں ہے، کمیشن رپورٹ میں سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار کے خلاف تحقیقات کو عدالتی حکم نہ سمجھا جائے۔

کمیشن رپورٹ کے مطابق چوہدری نثار اپنی وزارتی ذمہ داریاں ادا کرنے سے قاصر رہے اور سابق وزیر داخلہ نے ساڑھے تین سال کے دوران نیکٹا ایگزیکٹو کمیٹی کا صرف ایک ہی اجلاس بلایا تھا۔

فیصلے میں بتایا گیا کہ اٹارنی جنرل نے چوہدری نثار کے خلاف کمیشن کی آبزرویشنز کو ذاتی قرار دیا تھا، ان کے خلاف آبزرویشنز کمیشن کی تحقیقات پر مشتمل ہیں۔

فیصلے میں عدالت نے ہزارہ کمیونٹی کے تحفظ کے لیے اٹھائے گئے اقدامات پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہزارہ کمیونٹی کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے کئی اقدامات اٹھائے ہیں۔

فیصلے میں بیان کیا گیا کہ توقع ہے وفاقی اور صوبائی حکومتیں کمیونٹی کے مسائل دور کرنے کے لیے عملی اقدامات اٹھائیں گی۔

فیصلے میں بتایا گیا کہ اٹارنی جنرل کے مطابق نیکٹا کو مکمل طور پر فعال کر دیا گیا اور کمیشن کی سفارشات پر عمل درامد کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلا شبہ کوئٹہ میں دہشتگردی کا واقعہ ایک قومی سانحہ تھا جس کے باعث متعدد مسائل نے جنم لیا۔

فیصلے میں مزید کہا گیا کہ مسائل کے خاتمے کے لیے عدالت کو اپنا کردار بڑھ چڑھ کر ادا کرنا پڑا جبکہ سانحہ کوئٹہ کے باعث درپیش مسائل کو حل کرنے میں وفاقی اور صوبائی حکومت نے بھی اپنا کردار ادا کیا۔

خیال رہے کہ اس سے قبل سپریم کورٹ میں سانحہ کوئٹہ پر از خود نوٹس کیس کی سماعت میں اٹارنی جنرل نے سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار سے متعلق کمیشن رپورٹ میں ریمارکس حذف کرنے کی استدعا کی تھی۔

عدالت نے سماعت کے آخر میں فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم اٹارنی جنرل کی استدعا کو فیصلہ لکھتے ہوئے زیر غور لائیں گے۔

واضح رہے کہ 8 اگست کو کوئٹہ کے سول ہسپتال میں ہونے والے خود کش دھماکے میں 70 کے قریب افراد جاں بحق ہوئے تھے اور 100 سے زائد زخمی ہوئے تھے جن میں زیادہ تعداد وکلاء کی تھی۔

بڑی تعداد میں وکلاء بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر بلال انور کاسی کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد سول ہسپتال پہنچے تھے کہ اچانک دھماکا ہوگیا۔

سانحے کے بعد پر سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کے لیے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل ایک رکنی کمیشن تشکیل دیا تھاجس نے اسی سال اپنی رپورٹ جاری کی تھی۔

اس رپورٹ میں 21 اکتوبر 2016 کو وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی 3 کالعدم تنظیموں کے سربراہ (سپاہ صحابہ پاکستان، ملتِ اسلامیہ اور اہل سنت والجماعت) مولانا محمد احمد لدھیانوی سے ملاقات اور ان کے مطالبات سننے کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

یہ ملاقات اسلام آباد کے ریڈ زون میں واقع پنجاب ہاؤس میں کی گئی تھی۔

تحقیقاتی رپورٹ میں وزارت داخلہ کے کردار پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا گیا تھا کہ سانحہ کوئٹہ پر وفاقی و صوبائی وزراء داخلہ نے غلط بیانی کی، انسدادِ دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) کا اطلاق عوامی عہدیداران پر بھی ہوتا ہے اور انہیں کالعدم تنظیموں کے سربراہان سے اس طرح ملاقات نہیں کرنی چاہیئے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ نیشنل ایکشن پلان کو قومی سطح پر فعال بنانے کی ضرورت ہے اور حکومتی ملازمین کو بھی اس کی پاسداری کرنی چاہیئے، ورنہ انھیں نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔