|

وقتِ اشاعت :   January 17 – 2018

اسرائیلی وزیراعظم کا دورہ بھارت اختتام کے قریب ہے ، وہ چھ روزہ طویل دورے پر آئے ہیں ۔ اس سے قبل بھارتی وزیراعظم نے اسرائیل کا دورہ کیا تھا، یہ اسرائیلی وزیراعظم کا جوابی دورہ ہے ۔

اس دورہ میں 130سے زائد سرمایہ کار شامل ہیں جو بھارت کے ساتھ تجارتی معاہدوں پر دستخط کریں گے۔ ان میں بعض سرمایہ کار عسکری اداروں کے سربراہ ہیں جو جنگی سازو سامان فروخت کرنے آئے ہیں ۔

ایک اطلاع کے مطابق بھارت پچاس کروڑ ڈالرمالیت کی اینٹی ٹینک میزائل اسرائیل سے خریدے گا ، ان اینٹی ٹینک میزائلوں کی تعداد 8ہزار بتائی گئی ہے ۔ بھارت اسرائیل سے سالانہ ایک ارب ڈالر کا فوجی سازو سامان خریدتا ہے ۔

اس کے علاوہ اسرائیلی افواج اور جاسوسی ادارے کشمیر کی تحریک آزادی کو کچلنے میں بھارت کی مدد کررہے ہیں ۔ اسرائیل نے کشمیری احتجاج کو ختم کرنے کے لئے بھارتی افواج کو چرے والی بندوقیں استعمال کرنے کی تجویز دی تھی تب سے بھارتی قابض افواج یہی بندوقیں استعمال کررہی ہیں جس سے اب تک ہزاروں نوجوانوں کی آنکھیں ضائع ہوئی ہیں اور ہر شخص کو ایک سے زیادہ زخم لگے ہیں۔

بھارت نے اقوام متحدہ میں اسرائیل کی مرضی کے خلاف جنرل اسمبلی میں ووٹ دیا تھااور عربوں کی حمایت کی تھی اور خصوصاً امریکی صدر کے فیصلے کی مخالفت کی تھی جس نے امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کا اعلان کیا تھا۔

اسرائیل پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کا اتحادی ہے ،پاکستان روز اول سے یہودی ریاست کو تسلیم نہیں کرتا ۔ یورپی یہودیوں کو لا کر فلسطین میں آبادکرکے مغربی ممالک نے اسرائیلی ریاست کو وجود میں لایا ، بعض ممالک نے اسرائیل سفارتی تعلقات استوار کررکھے ہیں ۔

پورے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں جنرل پرویزمشرف واحد حکمران تھے جو اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے میں دلچسپی رکھتا تھا ۔ جب بھی موقع ملا مشرف نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ اسرائیل سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں بلکہ وہ اس حد تک چلے گئے کہ اس نے اپنے وزیر خارجہ خورشید محمود قصودی کو اسرائیلی دورے پر بھیجا۔

چونکہ پاکستان کی عوامی رائے اس کے سخت خلاف تھی اس لیے وہ خود اسرائیل کا دورہ نہ کر سکے اور نہ ہی ان کو ہمت ہوئی کہ وہ یہودی ریاست کو تسلیم کریں اور اس سے باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم کریں ۔ دوسری طرف رائے عامہ اسرائیل کے خلاف ہے وہ فلسطینی علاقوں خصوصاً یروشلم پراسرائیلی قبضہ کو تسلیم نہیں کرتے جو مسلمانوں کا قبلہ اول ہے۔

پاکستان کے عوام اور حکومتوں نے اسرائیلی اور یہودی ریاست کے خلاف ایک انتہائی سخت موقف اپنایا ہے اس لیے اسرائیل اور اس کا مذہبی جنونی وزیراعظم بھارت کے ساتھ دوستی میں تمام حدود پھلانگنے کو تیار ہے اور ہر قیمت پر اور ہر محاذ پر بھارت کی امداد کررہا ہے تاکہ کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی کو کچلا جاسکے اور کشمیر بھارت کا ہی حصہ رہے ۔ ۔

دوسری جانب کشمیری بھی اسی طرح پر عزم ہیں وہ یہودی ریاست کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ فلسطینیوں کی آزادی کے حق میں آئے دن جلسہ اور جلوس نکالتے رہتے ہیں۔ یہ پاکستان اور کشمیری عوام کی طرف سے بھارت اور اسرائیلی گٹھ جوڑ کا جواب ہے۔ پاکستان کی حکومت اور مسلح افواج تمام حالات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اور ہر قسم کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں۔