|

وقتِ اشاعت :   January 17 – 2018

 اسلام آباد: چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ (یو بی ایل) کی نجکاری کرکے قومی اثاثے کو ڈبو دیا گیا اور جو بھگتنا پڑا بھگت لیں گے لیکن انصاف کرتے رہیں گے۔

 چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے بینک ملازمین پنشنرز کیس کی سماعت کی۔ صدر یو بی ایل سیما کامل اور سی ایف او عامر عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار نے عدم پیشی پر الائیڈ بنک کے صدر پر دو لاکھ روپے جرمانہ عائد کرتے ہوئے کل طلب کرلیا۔ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ انصاف کرتے رہیں گے اور جو بھگتنا پڑا بھگت لیں گے۔

سپریم کورٹ نے یو بی ایل کی نجکاری پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ لگتا نہیں کہ نجکاری قانون کے مطابق ہوئی، قومی اثاثے کو ڈبو دیا گیا ہے، کیوں نہ بنک کی نجکاری کا بھی جائزہ لیں، معاملے پر مزید سوچ بچار کروں گا۔ سماعت میں یہ بات سامنے آئی کہ بعض ریٹائرڈ ملازمین کو صرف 243 روپے 72 پیسے پنشن دی جاتی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ایچ بی ایل بینک خوشحال بی بی کو ماہانہ 243 روپے 72 پیسے پنشن اور منظور فاطمہ بی بی کو 360 روپے ماہانہ پنشن دیتا ہے، بیوہ کو 243 روپے پنشن دینا کہاں کی انسانیت ہے، خوشحال بی بی کو کیسے کہوں کہ 243 روپے میں خوشحال رہو، 243 روپے پنشن لینے کے لیے تو رکشے کا کرایہ لگ جاتاہوگا، پنشنرز اب کمانے کے قابل بھی نہیں رہے، بزرگوں اور بیواؤں کو کیسے کہوں کہ آئین و قانون آپکے کیلئے کچھ نہیں کر سکتا۔

چیف جسٹس نے یو بی ایل کی صدر سیما کامل سے استفسار کیا کہ آپ کی کتنی تنخواہ ہے؟ تو صدر نے جواب دیا کہ آپ کو معلوم ہوگا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا میں آپ کے بنک کا ملازم ہوں جو مجھے آپ کی تنخواہ معلوم ہوگی؟ سیما کامل نے بتایا کہ میری تنخواہ 30 لاکھ ہوگی۔ یو بی ایل کے سی ایف او نے بتایا کہ اس کی تنخواہ 20 لاکھ ہے

چیف جسٹس نے کہا کہ جس کی اپنی تنخواہ 30لاکھ روپے ماہانہ ہو اسے ایسی چیزیں دیکھنے کی کیاضرورت ہے، بینک کی صدر کوکہیں جہاں 30لاکھ تنخواہ لے رہے ہیں وہ یہ پیسے بھی رکھ لے، صدر یوبی ایل 1321 روپے پنشن بھی ختم کردیں، بینک کے لئے ریٹائرڈ ملازمین فضول لوگ ہیں۔

جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ کیا بنک میں کوئی انسانیت بھی ہے یا نہیں؟ اپنے ریٹائرڈ ملازمین کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا، کیا یہ ریٹائرڈ ملازمین نالی کے کیڑے ہیں، کیا بنک کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ خود 30 لاکھ اور 20 لاکھ روپے تنخواہ لے رہے ہیں لیکن ملازمین کو 1321 روپے پنشن دے رہے ہیں، یہ کارپوریٹ سیکٹر کا ڈھانچہ ہے، یو بی ایل کی صدر نے اپنی تنخواہ اور مراعات درست نہیں بتائیں، کیوں نہ آئی بی یا ایف آئی اے سے ان کا پیکیج معلوم کروائیں، عدالت میں جھوٹ ثابت ہوا تو نتائج بھی بھگتنا ہونگے، بنک حکام باہر نکل کر عدالت کو برا بھلا کہتے ہیں۔

کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔