|

وقتِ اشاعت :   January 18 – 2018

پاکستان کے بارے میں صدر ٹرمپ کا سفارتی آداب کے منافی اور سخت ٹویٹ ملک خصوصاً انتہا پسند قوم پرست سیاست دانوں اور میڈیا میں غم و غصہ کا باعث بنا ہے۔280 کیریکٹرز کے ذریعے سفارتی سیاست کے ساتھ مشکل یہ ہے کہ اس قسم کے ٹویٹس انتہائی مختصر پیغام دیتے ہیں۔

ایک چھوٹا سا ٹویٹ بیان، پیچیدہ مسائل کے بارے میں درست پس منظر نہیں دے سکتامگر ناکافی صلاحیت کے باوجوداس میڈیم کے بے دریغ طریقے سے استعمال کی روش چل نکلی ہے۔

کوئی بھی دو ملکوں کے درمیان تعلقات کی بنیاد بے لوث جذباتی قدر پر نہیں بلکہ ذاتی مفاد پر ہوتی ہے۔

پاک امریکہ تعلقات متعدد نشیب و فراز سے گزرے ہیں۔کچھ عرصہ قبل تک پاک امریکہ تعلقات کی بنیاد قائد اعظم کا ویژن تھا۔”پاکستان کے وجود میں آنے سے بھی قبل یکم مئی،1947 کو جناح صاحب سے ان کی بمبئی کی رہائش گاہ پر دو امریکی مہمانوں نے ملاقات کی تھی۔

ان میں جنوبی ایشیائی امور ڈویژن کے سربراہ ریمنڈ اے ہارے اور ہندوستان میں امریکی سفارت خانے کے سیکنڈ سیکرٹری تھامس ای ویل شامل تھے۔ انھوں(جناح) نے اپنے مہمانوں کو باور کرانے کی کوشش کی کہ ایک آزاد اور خود مختار پاکستان کا قیام امریکی مفادات کے مطابق ہو گا۔پاکستان ایک مسلمان ملک ہو گا۔

مسلمان ممالک روسی جارحیت کے خلاف اکٹھے کھڑے ہوں گے” (ایم ایس وینکٹ رامن)نوزائیدہ پاکستان کے رہنماؤں کو بھارتی جارحیت کا خوف تھا انھیں اپنی کمزور فوج کو مضبوط بنانے کے لیے امریکی مدد کی ضرورت تھی ،اور بدلے میں انھوں نے اس علاقے میں سوشلسٹ خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی خدمات پیش کیں۔ پاکستان کو تصوراتی بھارتی خطرے میں مبتلا رکھا گیا اور اس کی فوجی قیادت کو امریکہ کے ساتھ گہرے مراسم کی اجازت دی گئی۔

پہلے انھوں نے1954 میں باہمی دفاعی معاہدے پر دستخط کیے ،جس میں کسی بھی کمیونسٹ بغاوت کا مقابلہ کرنے کی شق شامل تھی۔

اس کے بعد پاکستان معاہدہ بغداد/ سینٹو اور سیٹو میں شامل ہو گیا۔خواجہ ناظم الدین کو جنھوں نے کسی اتحاد میں شامل ہونے کی مخالفت کی تھی،غلام محمد نے نکال باہر کیا۔

امریکی فوجی امداد آتی رہی اور1965 میں اس وقت تک سینئر افسروں کی تربیت جاری رہی جب اِس بنا پر اسے روک دیا گیا کہ پاکستان نے لائن آف کنٹرول کے پار خفیہ” آپریشن جبرالٹر” شروع کیا تھا۔

چونکہ پاکستان کو دی جانے والی فوجی امداد اس انتباہ کے ساتھ مشروط تھی کہ یہ جارحانہ مقاصد کے لیے استعمال نہیں کی جائے گی اس لیے امریکہ نے دونوں ملکوں کو فوجی آلات کی سپلائی روک دی۔

اس وقت بھی یہی فقرہ زبان زد عام تھا کہ” امریکہ قابل بھروسہ دوست نہیں ہے” ۔کیا آج بھی اسی پیغام کی گونج سنائی نہیں دے رہی؟1975 میں فوجی اور سویلین امداد بحال کر دی گئی مگر 1979 میں پاکستان کے جوہری پروگرام پرتشویش ظاہر کرتے ہوئے سیمنگٹن ترمیم کے تحت یہ ایک بار پر معطل کر دی گئی۔

مگر جب بائیں بازو کی افغان حکومت کی دعوت پرسوویت یونین کی فوجیں پاکستان کی پیدا کردہ شورش پر قابو پانے کے لیے وہاں پہنچیں تو امریکی حکومت نے جوہری پھیلاؤ کے خلاف تمام اصول فراموش کر دیئے۔

چنانچہ پاکستان نے 1947 میں اپنے رہنماؤں کی طرف سے کیے جانے والے اس وعدے کی پاس داری کی کہ وہ سوویت یونین کے خلاف فرنٹ لائن اسٹیٹ رہے گا۔

یہاں اس بات کا ذکر مناسب ہو گا کہ یہ جنرل ضیا الحق اور امریکی انتظامیہ ہی تھی جس نے 1979-89 کے دوران افغانیوں اور پاکستانیوں کے لا تعداد اسلامی جہادی گروپ تشکیل دیئے۔

امریکہ اور پاکستان اسی خطرناک پالیسی کی خونی فصل کاٹ رہے ہیں۔زیادہ تر مجاہدین 50 سے70 فیصد اسلحہ اور گولہ بارود پاکستان میں بیچتے رہے جس کے نتیجہ میں اس ملک میں ڈیڑھ سے دو بلین ڈالر کے ہتھیار پھیل گئے۔

یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے کہ امریکیوں نے ان اسلامی محافظوں اور ” اسلامی ٹیکنو گوریلاز”سے نمٹنے کے لیے ہمیں بے یار و مدد گار چھوڑ دیا۔

1989 میں سوویت فوجوں کے انخلا ء کے بعدامریکہ کو پھر پاکستان کا جوہری پروگرام یاد آ گیا اور پریسلر ترمیم کے تحت پاکستان کی تمام فوجی اور اقتصادی امداد روک دی گئی۔

یہ یقین دلایا گیا کہ پاکستان جوہری بم کے پروگرام پر کام نہیں کر رہا مگر شواہد اس کے بر عکس تھے۔

پھر جب القاعدہ نے ورلڈ ٹریڈ ٹاورز کو اڑا دیا تو امریکہ نے پاکستان کے لیے کوئی راستہ نہ چھوڑا سوائے اس کے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شامل ہو جائے۔

اس سے پہلے دونوں ملکوں کے تعلقات ان بالغان کی طرح تھے جو سب کچھ باہمی رضامندی سے کرتے تھے مگر9/11 کے بعد کی شادی جبری تھی۔

پاکستان امریکہ تعلقات کی بنیادی شرائط جیسا کہ قائد نے طے کی تھیں،9/11 کے بعد تیزی سے تبدیل ہوئیں۔ہم نے اسلامی عسکریت پسندوں کے خلاف نہیں بلکہ کمیونسٹ سوویت یونین کی توسیع کے خلاف امریکہ کا ساتھ دینے کا راستہ پسند کیا تھا۔خاص طور سے ایسی صورت میں جب کہ پاکستان خود فسطائی طالبان قیادت کو بر سر اقتدار لایا تھا۔

صدر مشرف نے افغانستان میں افغان طالبان کی لڑائی کی خفیہ حمایت کر تے ہوئے امریکہ کے ساتھ ڈبل گیم کھیلنے کا فیصلہ کیااور اس کے ساتھ ہی القاعدہ کی قیادت کو امریکہ کے حوالے کر دیا۔

اسٹیبلشمٹ کی طرف سے یہی پالیسی جاری رکھی گئی۔امریکی قیادت ہمیں طالبان اور حقانی نیٹ ورک کی حمایت بند کرنے کے لیے مسلسل کہتی رہی ہے۔وہ جب بھی اس معاملہ کو اٹھاتے ہیں ہماری حکومت پاکستانی طالبان اور داعش کے خلاف فوجی آپریشن کی بات کرتی ہے۔

درحقیت یہ آدھا سچ ہے،کیونکہ ہم نے اُن اسلامی عسکریت پسندوں کے خلاف لڑتے ہوئے کچھ قربانیاں دی ہیں جو پاکستانی حکومت کی رٹ کو چیلنج کر رہے تھے۔بلاشبہ یہ پاکستان کی بقا کی جنگ ہے۔مگر یہ وہ نہیں ہے جس کی بات امریکی کر رہے ہیں۔

انھیں مختلف قسم کے عسکریت پسند گروپوں یعنی افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے بارے میں زیادہ پریشانی ہے۔

لگتا ہے کہ امریکی اس وہم میں مبتلا ہیں کہ پاکستان کے پی کے (خیبر پختونخوا)میں افغان طالبان اور حقانی گروپ کے خلاف کارروائی کر سکتا ہے۔

پاکستانی اسٹیبلشمنٹ افغانستان سے متعلق ان طالبان کے خلاف ایک نیا محاذ کھولنے سے اس وجہ سے گریزاں ہے کہ اسے ان تنظیموں اور ان کی حمایت کرنے والوں کی طرف سے جوابی اقدام کا ڈر ہے۔

اور اس کے ساتھ ہی جیسا کہ اس سے قبل کہا جا چکا ہے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اس دھوکے میں ہے کہ افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک ،ایک دشمن افغانستان کی صورت میں پاکستان کا اثاثہ ہیں۔

پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا خیال ہے کہ اب وہ امریکہ سے دوری اختیار کرنے کی متحمل ہو سکتی ہے اور اس کی وجہ چینی اور روسی بلاک کے ابھار کے ساتھ اس علاقے کی بدلی ہوئی جیو اسٹریٹجک صورت حال ہے۔پاکستان نے اس نئی چھتری کے نیچے آنے کا فیصلہ کیا ہے۔


کالم نگار فری لانس صحافی اور مصنف ہے ۔رسائی کے لیے: ayazbabar@gmail.com