|

وقتِ اشاعت :   January 19 – 2018

کوئٹہ: انسپکٹر جنرل پولیس بلوچستان معظم جاہ انصاری کا کہنا ہے کہ پولیو ٹیموں کو ممکنہ سیکورٹی فراہم کی گئی تھیں تاہم تمام بارہ سو ٹیموں کو فرداً فرداً سیکورٹی فراہم کرنا وسائل اورنفری کی کمی کے باعث ممکن نہیں ۔

فائرنگ میں شہید ہونیوالی خاتون رضا کار اپنے محلے میں گھر گھر جاکر بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلارہی تھیں۔ مقامی سطح پر بھرتی کی گئیں خواتین رضا کاروں کو سیکورٹی فراہم نہ کرنا عالمی ادارہ صحت کی حکمت عملی تھی ۔ اندازہ یہ تھا کہ اپنی گھر کے قریب گلی محلے میں ان رضا کاروں کو خطرہ نہیں جو ہزارگنجی فائرنگ واقعہ کے بعدغلط ثابت ہوا۔

یہ بات انہوں نے ہزار گنجی میں خواتین پولیو ورکرز کے قتل کے بعد جائے وقوعہ کے دورے کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ اس موقع پر ایس ایس پی آپریشنز نصیب اللہ خان اور ایس ایس پی انویسٹی گیشن جواد احمد بھی موجود تھے۔

آئی جی پولیس معظم جاہ انصاری نے کہا کہ بد قسمتی سے آج دہشتگردی کے دو واقعات ہوئے جن میں خواتین رضا کاروں اور پولیس اہلکار کو ہدف بنایا گیا۔ کوئٹہ میں نئے سال کے آغاز سے اب تک دہشتگردی کے چار پانچ واقعات ہوچکے ہیں جن میں سے زیادہ تر پولیس کو ہدف بنایا گیا ہے۔ جنوری2016ء کے سیٹلائٹ ٹاؤن خودکش حملے کے بعد دو سال کے وقفے سے پولیو ٹیموں پرحملہ کیا گیا ہے۔

اتنے لمبے عرصے تک حملہ نہ ہونے کی وجہ شاید یہی تھی کہ پولیو ٹیموں کی سیکورٹی بہت زیادہ بڑھادی گئی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ کچھ عرصہ سے عالمی ادارہ صحت نے انسداد پولیو مہم کا دائرہ کار بڑھاتے ہوئے کمیونٹی بیسڈ وائلینٹرز یعنی مقامی سطح پر خواتین رضا کاروں کو بھرتی کیا۔ ان خواتین رضا کاروں کا کام اپنے محلے میں گھر گھر جاکر بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانا تھا ۔

خاتون اور بیٹی کا گھر جائے وقوعہ سے دو گلیاں چھوڑ کر تھا۔انڈرسٹینڈنگ یہ تھی کہ چونکہ یہ مقامی رضا کار اور مقامی خواتین ہیں اوراپنے ہی گھرکے قریب گلی میں پولیو قطرے پلاتے ہوئے انہیں کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔ یہ حکمت عملی عالمی ادارہ صحت کی تھی لیکن اس کیس میں مقامی خواتین کو بھی ہدف بنایا گیا ۔

انہوں نے کہا کہ یہ بنیادی طور پر پولیو مہم کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہے اس میں مختلف قسم کے لوگ اور مختلف قسم کی طاقتیں ملوث ہوسکتی ہیں ۔ پولیس خواتین رضا کاروں اور پولیس اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعہ کی تفتیش کررہے ہیں اگر ان میں کوئی ممماثلت نظر آئی یا یا نشاندہی ہوئی کہ کونسا گروہ ملوث ہے تو انشاء اللہ اس کے خلاف ہرممکن قانونی کارروائی کرینگے۔

ہمیں اپنی پولیس سے توقع ہے کہ وہ ان تمام واقعات میں ملوث عناصر کا سراغ لگا کر انہیں کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔ آئی جی پولیس نے کہا کہ کوئٹہ میں 16جنوری سے چھ روزہ مہم شروع ہوئی ۔ اس مہم کے دوران بارہ سو ٹیمیں کام کررہی ہیں ان کے ہمراہ سیکورٹی بھی فراہم کی گئی تھیں لیکن انفرادی سطح پر تمام بارہ سو ٹیموں کو سیکورٹی فراہم نہیں کی جاسکتی۔

ہمیں وسائل اور نفری کی کمی کا سامنا ہے اس لئے ہم ہر ٹیم کے ساتھ ایک یا دو اہلکار ہم نہیں لگاسکتے تھے لیکن ہم نے شہر بھر میں سیکورٹی کے انتظامات کر رکھے تھے ۔ بارہ سو ٹیموں کیلئے ہمارے پاس آدھے کے قریب اہلکاروں کی تعداد میسر تھی۔

آئی جی پولیس نے کہا کہ کوئٹہ شہر میں میں دستیاب وسائل میں رہتے ہوئے جہاں جہاں تعیناتی ہوسکتی تھی وہ ہم نے کی ہے۔صحت کے بنیادی مراکز اور گزر گاہوں پر تعینات ٹیموں کو بھی سیکورٹی فراہم کی گئی تھی ۔ مختلف مقامات پر موبائل پٹرولنگ اور انفرادی طور پر بھی سیکورٹی فراہم کی گئی تھی ۔

سریا ب سیکٹر میں کیمروں کی خرابی سے متعلق سوال پر آئی جی پولیس نے کہا کہ بڑے پیمانے پر کیمروں کی تنصیب کا کام سیف سٹی پراجیکٹ کے تحت ہونا ہے اور اس پراجیکٹ کو ابھی تک عملی جامہ نہیں پہنایا جاسکا ہے ۔

کچھ قانونی ضابطوں او رقواعد کی وجہ سے اس پراجیکٹ میں تاخیر ہورہی ہے تاہم ہماری اور حکومت دونوں کی کوشش ہے کہ اس تاخیر کو جلد سے جلد ختم کرکے کوئٹہ میں سیف سٹی پراجیکٹ کو عملی شکل دی جاسکے۔