|

وقتِ اشاعت :   February 8 – 2018

سفید ریشی اوربزرگی، نیکی اور فراخ دلی کے ساتھ ایک عظمت اور نعمت خداوندی ہیں ۔لالہ صدیق بلوچ سے تعلق کی بنیاد اُن کی یہی عظیم صفتوں کے باعث دوستی بلکہ شاگردی میں بدل گئی۔

زمانہ طالب علمی میں بلوچستان یونیورسٹی کے ایام شوق ہوں یا سیاسی و جغرافیائی معاملات پر وسیع تناظر میں گفتگو و رہنمائی کی ضرورت ہو، لالہ صدیق بلوچ کو ہمیشہ ایک اچھے بزرگ اور دیانت دارانہ رائے دینے والے دانشور کی طرح پایا۔

لالہ صدیق بلوچ کراچی کے بلوچ تہذیب واقتدار کے پاسبان علاقے لیاری میں پلے بڑھے۔ تعلیم و ہنر میں محنت و جستجو کو اپنا ورثہ پایا اور خوب سے خوب تر کی کوشش میں رہے۔ وہ اپنی ذاتی زندگی سے لے کر سماج ،معاشرے میں ’’اسٹیٹس کو‘‘ کے خلاف رہے اس لئے ’’ ڈان‘‘ جیسے معتبر اور اہم اخبار کی سینئر رپورٹر شپ کو ذریعہ معاش بنانے کے بجائے وژن اور مقصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے کراچی کے بجائے کوئٹہ کو کاروبار یا معاش کا ٹھکانہ بنایا۔

آج کے نوجوان بڑے شہروں کی طرف بھاگتے ہیں اس لئے کہ معاشی فوائد سمیٹنے اور لائف اسٹائل کو انجوائے کرنے کیلئے بڑے شہر ہی معتبر ٹھہرتے ہیں مگرمقاصد بڑے ہوں اور اپنی نظریات اور قوم سے محبت ہو تو چھوٹے شہروں میں بھی بڑے لوگ آکربستے ہیں لالہ صدیق بلوچ نے اسی فارمولے پر عمل کیا۔


لالہ صدیق بلوچ، ہنر و صحافت کے ساتھ سیاسی کارکن اوردانشور تھے، وہ نیپ کے پلیٹ فام پر سرگرم تھے بلوچ سیاستدانوں میر غوث بخش بزنجو مرحوم، نواب مری مرحوم، نواب بگٹی مرحوم اور سردار عطاء اللہ مینگل کے ساتھ وہ قریب رہے اور سیاسی مراسم و جدوجہد نبھانے کی کوشش کی۔ بلوچ قوم پرست سیاست کے دوسرے و تیسرے درجے کے قائدین ان کے شاگردو کارکن رہے ہیں ۔

بلوچ سماج کو گہرائی اور دیانت داری سے اس امر کا جائزہ لینا ہوگا کہ وہ قبائلی نظام کی خرابیوں کو کب تک اپنے گلے کا ہار، موتیوں اور پھولوں کی طرح رکھیں گے، پھر ایک وقت ایسا آیا کہ’’لالہ صدیق‘‘ سیاست سے صحافت میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے اگرچہ وہ ایک کامیاب اور باوقار صحافی و دانشور ٹھہرے مگر سیاست کے تلخ حائق اور اپنوں کی بے وفائی کو بھول نہیں پائے۔ انور ساجدی، ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ اور اس قبیل کے دوسرے بلوچ قلمکاروں اور دانشوروں کو یہ فرض ادا کرنا چاہیے۔ لالہ صدیق بلوچ نے انگریزی زبان اور نئے ذرائع ابلاغ کو اپنے معاشرے کی ترقی، سدھار اور عروج و کمال تک پہنچانے کا ذریعہ بنایا۔

آج ایک معاشرتی و ذہنی چیلنج درپیش ہے کہ ہم علم و ہنر سیکھنے اوراپنے معاشروں کو ترقی و راحت کے بجائے نان ایشوز اور صرف خوبصورت و خوش نما نعروں و سلوگن پر قناعت کیا جارہا ہے۔ کیایہ ایک المیہ نہیں کہ بلوچ ایک ایسے قیمتی سرزمین کے مالک ہیں جہاں سونے کے ڈھیر پڑے ہیں، ساحل موجود ہے اور افغانوں وایرانیوں کے ساتھ ملکر یا اتفاق رائے پیدا کرکے اقوام عالم تک پہنچنے کے لئے راستے، گیٹ وے موجود ہیں مگربلوچ و پشتون نا خواندہ و پسماندہ ہیں۔

دنیا علم و ہنر اور ٹیکنالوجی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ ایران و ترکی کی مثالیں سامنے ہیں چائنا و جاپان ہمارے سامنے ہیں جبکہ افغانوں کی زندگی جھگڑوں کی نذر ہے اور بلوچوں کو قبائلیت و اختلاف کے اندر دھکیل دیا گیا ہے ۔


لالہ صدیق بلوچ اس غم کا اظہارکرتے کرتے قبر تک جاپہنچے ۔ابھی حالیہ دنوں میں پنجاب یونیورسٹی میں طلبہ کے درمیان اختلاف رائے، جھگڑے اور گرفتاری اور مقدمات پر وہ رنجیدہ تھے، اگرچہ ’’روزنامہ آزادی کوئٹہ‘‘ نے کوئٹہ میں یکطرفہ ماحول اور سیاسی کشیدگی و تناؤ کو پیش نظر رکھتے ہوئے بلوچ طلبہ کے حق میں جانبدارانہ ادارتی نوٹ تحریر و شائع کیا اور یہی کام ’’روزنامہ انتخاب‘‘ کے ادارتی صفحے پر سر انجام دیا گیا۔

میں نے ازراہ انصاف اور حقائق کو واضح کرنے کے پیش نظر، اپنے دونوں بزرگ شخصیتوں لالہ صدیق بلوچ مرحوم اور جناب انور ساجدی سے رابطہ کیا مگر شکوہ کے بعد جوابی تحریر ارسال فرمائی جسے لالہ صدیق بلوچ نے اگلے دن ادارتی صفحے پر نمایاں شائع کیا اور میری ثالثی کی درخواست قبول فرماتے ہوئے بشرط صحت کردار ادا کرنے کا وعدہ فرمایا۔

وہ طلبہ سیاست سے آشنا، اسلامی جمعیت طلباء کے کردار سے بخوبی واقف اور ممتاز و بزرگ سیاستدان، جناب سید منور حسین صاحب کے کلاس فیلو رہے تھے وہ بی ایس او کے بانیان میں شمار ہوتے تھے۔ اور طلبہ نوجوانوں کے معاملات و نزاکتوں سے بخوبی واقف تھے۔ انہوں نے سیاست کے بعد صحافتی زندگی میں نوجوانوں کی ایک کیمپ تیار کی جنہیں اب اپنے معاشرے کے لئے مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔

روشن دماغ، مدلل گفتگو اور شائستہ کردار رکھنے والے لالہ صدیق بلوچ کو مرحوم لکھنا مشکل ہورہا ہے۔ ان کے باوقار صاحبزادے آصف بلوچ، خاندان اور پوری ٹیم کو ایک مشکل وقت میں حوصلہ و ہمت سے کام لینا چاہیے اور لالہ کے مشن و عزائم کو ہر صورت ترجیح دینی چاہیے، بلوچستان آج دوراہے پر کھڑا ہے۔ مستقبل قریب کے بدلتے ہوئے چیلنجز و مشکلات کے لئے تیاری کرنا ہوگا۔

ایسے نازک ترجیحات کے تعین کے لیے وژنری شخصیات کا ہونا لازمی ہوتا ہے مگر موت ایک اٹل حقیقت ہے اور رب کریم کے فیصلوں کا عملی نفاذو اظہار ہے۔ بدلتی ہوئی دنیا میں نفرت و تعصب کے بجائے علم و ہنر سے وابستگی اختیار کرنی ہوگی کوئٹہ ہو یا گوادر، لورالائی ہو یا ڈیرہ بگٹی، آج ایسی شخصیات کی ضرورت بہت زیادہ محسوس کی جاتی ہے جو اخوت و محبت کے پیکر ہوں اور نوجوانوں کی رہنمائی پر آمادہ وکمربستہ ہوں۔ 

رب کریم لالہ صدیق بلوچ کی مغفرت فرمائے ان کے سفر آخرت کو آسان و شاداب بنائے ۔ان کے اہل خانہ و احباب کو صبر جمیل سے نوازے اور ہمارے معاشرے پر آسانیاں و رحمتیں نازل فرمائے۔