|

وقتِ اشاعت :   February 10 – 2018

بلوچستان میں حکومتی تبدیلی ایک سیاسی عمل تھا یا سازش اس پر بحث کرنے سے قبل زمینی حقائق کودیکھا جائے تو کچھ چیزیں واضح طور پرسامنے آتی ہیں کہ ن لیگ کی 2013ء میں بننے والی حکومت نے بلوچستان کو کیا دیا۔

انتخابات کے بعد مری معاہدہ طے پایا جس میں ڈھائی سال کے لیے ایک وزیر اعلیٰ اور مزید اتنے ہی عرصے کے لیے دوسرا وزیراعلیٰ لانے پر معاملات طے پائے جس میں پہلی باری نیشنل پارٹی کے ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ جبکہ دوسری باری مسلم لیگ ن کے نواب ثناء اللہ خان زہری کے حصہ میں آئی۔

دونوں ادوار میں امن و امان کی بہتری ترجیحات میں شامل رہی جس میں خاطر خواہ کامیابی بھی حاصل ہوئی اس کا سہرا یقیناًحکومت اور عسکری قیادت کو ہی جاتا ہے جنہوں نے بلوچستان میں امن وامان کی بحالی کے حوالے سے ایک پالیسی مرتب کی اور مذاکرات کیلئے وفود بھی بیرون ملک گئے۔ اب آتے ہیں اس سوال پر کہ ن لیگ کی حکومت بلوچستان میں کیوں ختم ہوئی ۔

سب سے پہلے ن لیگ کے ہی اسپیکر جان محمد جمالی نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا تو موجودہ وزیراعلیٰ بلوچستان میرعبدالقدوس بزنجو نے ڈپٹی اسپیکر کامنصب سنبھالامگر وہ بھی زیادہ دیر اس منصب پر نہیں بیٹھے اور مستعفی ہوگئے۔ ساڑھے چار سال کے دوران مسلم لیگ ن اور ق لیگ کے اراکین متعدد مرتبہ شکایت کرتے نظرآئے اور ان کا گلہ یہی رہا کہ انہیں فنڈز سمیت وزارت نہیں دی گئی جس کی بناء پروہ اپنے حلقوں میں کارکردگی دکھاسکیں۔

گوادر کی ترقی ،سی پیک کامنصوبہ مختلف ادوار میں زیرغور رہے، ن لیگ کی حکومت کے دوران باقاعدہ اس پر معاہدے ہونا شروع ہوئے مگر اس پورے دورانیہ میں بلوچستان کے حصہ میں کچھ نہیں آیا۔ پٹ فیڈرکینال، گرین بس، ماس ٹرانزٹ ٹرین، سڑکوں کا جال، ریلوے ٹریک، گوادر میں پانی کی فراہمی سمیت متعدد منصوبوں کے اعلانات کئے گئے مگر آج تک برسر زمین یہاں کچھ کام دکھائی نہیں دیتا۔اس کی ذمہ دار ی یقیناًمسلم لیگ ن کی مرکزی قیادت پر ہی جاتی ہے، ۔

ناراضگی تلخی میں بدل گئی اور اس کے بعد عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی ۔ اس میں صرف ن اور ق لیگ ہی نہیں بلکہ نیشنل پارٹی، پشتونخواہ میپ اور آزاد ارکین نے بھی اپنا حصہ ڈالااور انہوں نے اس تحریک کی وجہ انہی شکایات کوبتایا۔ اگر ان ناراض اراکین کے گلے شکوے درست نہیں تھے تو ن لیگ کی مرکزی حکومت دلیل سے اس کا جواب دیتی اسے محض سازش سے جوڑنا غلط ہے۔

سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف جب کوئٹہ جلسہ کرنے آئے تو انہوں نے اپنی پوری تقریر ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ پر ہی کیااور اس کے ساتھ ہی راولپنڈی، اسلام آباداور ملتان کی ترقی کی مثالیں کوئٹہ کے جلسے میں پیش کرتے ہوئے شہباز شریف اور مسلم لیگ کی حکومت کی تعریفیں کرتے رہے مگر ایک جملہ تک یہ نہیں کہاکہ انہوں نے بلوچستان میں کونساپروجیکٹ مکمل کیا جس کے حکومت نے وعدے کئے تھے ۔

بدقسمتی سے میاں نواز شریف نے پسماندہ صوبے کے عوام کے سامنے وہی باتیں کیں جس کا گلہ یہاں کی سیاسی قیادت ہمیشہ سے کرتی آئی ہے اور عوام انہی رویوں سے نالاں ہے۔ وزیراعظم شاہدخاقان عباسی بھی کوئٹہ تشریف لائے انہوں نے ایک ارب روپے پیکج کا اعلان کیا، بلوچستان کی ترقی کو یقینی بنانے کا وعدہ کیا اور ہر مہینے بلوچستان کے دورہ کی بات کی مگر بلوچستان میں حکومتی تبدیلی کے بعد وہ واپس نہیں آئے۔

البتہ عدم اعتماد تحریک پیش ہونے سے قبل ایک روز کوئٹہ تشریف لائے تاکہ ناراض لیگی ارکان کو مناسکیں مگر وہ کامیاب نہیں ہوئے۔ بلوچستان کی پسماندگی کی وجہ ہمیشہ وفاقی حکومت کا ناروا رویہ ہی رہا ہے جس پر بلوچستان کی سیاسی قیادت ہمیشہ نالاں رہی ہے مگر اس بار انہوں نے سیاسی طریقے سے اِن ہاؤس تبدیلی لائی بجائے کہ پُرتشدد راستہ اپناتے اور یوںیہ ایک نئی روایت بلوچستان کی سیاست میں رکھ دی گئی۔

اب سوال یہ ہے کہ سینیٹ انتخابات کے لیے بلوچستان پر ہی نظریں کیوں لگی ہوئی ہیں ؟ خدشہ ظاہر کیاجارہا ہے کہ یہاں ہارس ٹریڈنگ ہوگی مگر بدقسمتی سے یہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے صرف بلوچستان ہی میں نہیں بلکہ دیگر صوبوں میں بھی ہارس ٹریڈنگ کا معاملہ سامنے ہے محض بلوچستان پرنظریں اس لئے رکھنا کہ بلوچستان حکومت کے فیصلے اب ن لیگ کی مرکزی قیادت نہیں کررہی بلکہ موجودہ اتحادی خود کررہے ہیں ۔

اس لئے بلوچستان کی بجائے تمام صوبوں پر ہارس ٹریڈنگ کے معاملے میں نظر رکھنی چاہئے۔ جمہوریت کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے جس طرح بلوچستان میں اِن ہاؤس تبدیلی آئی اور اس کے محرکات کیاتھے ان کا ازالہ ضرورکرنا چاہئے بجائے کہ اسے دوسرا رخ دیاجائے۔

بلوچستان میں سیاسی تبدیلی کے حوالے سے زرداری پر بھی الزامات لگائے گئے بجائے یہ کہ بلوچستان کے حوالے سے جو وعدے کئے گئے تھے ان میں سے کم ازکم چند منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچایاجاتا توشاید حالات کچھ اور ہوتے ۔ امید یہی کی جاسکتی ہے کہ اگلی بارجس کی بھی مرکز میں حکومت بنے گی وہ بلوچستان کی ترقی کیلئے حسب روایت وعدے نہیں بلکہ عملی اقدامات اٹھائے گی ۔

سینیٹ انتخابات میں ایک مہینہ رہ گیاہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہارس ٹریڈنگ کا ریکارڈ کون توڑتا ہے ۔ تاہم امید یہی ہے کہ اس بار ہمارے سیاستدان عوامی مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے جمہوریت کے تسلسل، اس کے استحکام اور ملکی خوشحالی کیلئے اپنا کردار ادا کرینگے۔