|

وقتِ اشاعت :   February 15 – 2018

وہ ایک سلجھے ہوئے نڈر اور بے باک صحافی تھے۔بلوچستان کی سیا ست پر انکی گہری نظر تھی۔زمانہ طالب علمی سے ہی عملی سیاست میں حصہ لینا شروع کیا ۔ پہلے پہل نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے طلباء کی حقوق کے لیے آواز بلند کی ۔

بعدازاں بلوچستان کی پسماندگی اور اپنے بلوچ بھائیوں کی زبوں حالی دیکھ کر بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (BSO) میں شمولیت اختیار کی اور BSO کے فعال رُکن رہے۔تعلیم سے فا رغ ہوئے تو وہ نیشنل عوامی پارٹی (NAP) میں شامل ہوگئے بلوچستان کے چوٹی کے سیاستدانوں کے ساتھ کام کرتے رہے ۔ جہاں انہیں میر غوث بخش بزنجو و دیگر سیاسی اکابرین کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور اُن کی رہنمائی میں انہوں نے صحافت کا پیشہ اختیار کیا۔

جب میر غوث بخش بزنجو گورنر بلوچستان بنے تو ان کے ساتھ پریس سیکریٹری کے فرائض انجام دیئے۔NAP کی حکومت کی برطرفی کے بعد میر غوث بخش بزنجو ،سردار عطااللہ مینگل ،ولی خان ،نواب خیر بخش مری اور دیگر لیڈران کے ساتھ جیل کی صعوبتیں برداشت کیں۔ساڑھے چار سال تک حیدر آباد جیل میں رہے۔

جب ضیاء الحق کی حکومت آ ئی تو انہوں نے حیدر آباد ٹریبونل کیس ختم کیا اور انہیں رہائی نصیب ہوئی۔چونکہ وہ کراچی میں رہتے تھے اور انگریزی اخبار ڈان سے وابستہ تھے ۔ رہائی کے بعد وہ دوبارہ ڈان سے وابستہ ہو گئے اور بلوچستان کے حوالے سے لکھنا شروع کیا۔1980ء کی دہائی میں سیندک گولڈ پراجیکٹ پر کام شروع ہوا ۔

اس پراجیکٹ کے ڈائریکٹر یعقوب بزنجو تھے ۔1983ء میں میری تعیناتی پاکستان ٹیلی وژن کوئٹہ سینٹر میں پروڈیوسر کی حیثیت سے ہوئی اور میں نیوز کرنٹ افیئرز کا پروڈیوسر بنا۔اس دوران مجھے سیندک گولڈ پراجیکٹ پر کام کرنے کا کہا گیا۔میں نے پراجیکٹ ڈایکٹر یعقوب بزنجو سے رابطہ کیا۔

چند دنوں کے بعد ہم سیندک کے لیے روانہ ہوئے۔یعقوب بزنجو کے ساتھ ایک پر وقار اور خوش گفتار شخص سے میرا تعارف کروایا گیا۔یہ پروقار شخص روزنامہ ڈان نیوز کے نمائندے صدیق بلوچ تھے۔ان سے علیک سلیک ہوئی۔ایک دوسرے کے ساتھ بلوچی میں حال احوال ہوا۔ان دنوں سیندک آنے جانے والی سڑک اتنی اچھی نہیں تھی۔آٹھ گھنٹے کا سفر عموماً 12 گھنٹے سے 15گھنٹے میں طے ہوتا تھا۔

اس سفر میں ہم ایک دوسرے کے ساتھ اتنے گھل مل گئے جیسے برسوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہوں ۔ وہ مجھ سے سینئر تھے ، میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔ وہ ایک جہاندیدہ شخص اور پرنٹ میڈیا سے ان کا تعلق تھا ۔ وہ میرے لئے اتنے کار آمد ثابت ہوئے کہ جب 1990ء کے بعد کوئٹہ آگئے اور یہاں سے انہوں نے انگریزی اخبار ’’ Balochistan Express‘‘اور بعدازاں روزنامہ ’’ آزادی ‘‘ نکالا۔

ان اخبارات نے بلوچستان میں بہت جلد اپنا مقام بنالیا ۔ اس کے بعد میرے اور لالہ صدیق بلوچ کے رابطے بڑھ گئے کیونکہ میں ٹی وی سے حالات حاضرہ کا پروگرام کیاکرتاتھا۔ لالہ صدیق بلوچ بلوچستان اور پاکستان کی سیاست پر گہری نظر رکھتے تھے اس لئے سیاسی پروگرام ہو یا بجٹ کا پروگرام ، ترقیاتی پروگرام ہویا سماجی حوالوں سے پروگرام صدیق بلوچ ہر پروگرام میں بے باک تبصرہ کرتے ۔ ان کے ساتھ اردو اور بلوچی کے سینکڑوں پروگرام کئے ۔

1993ء کے انتخابات میں سید فصیح اقبال ، عزیز بگٹی ، یعقوب بزنجو ، مجید اصغر ، اکبر خان اچکزئی ، امداد نظامی ، پروفیسر شکر اللہ ، مقبول رانا ، میر نصرت حسین عنقا ، اسلم جنگیان ، عبدالقادر شاہوانی ، گل فرزانہ ، شہزادہ ذوالفقار ، عزیز بھٹی، راؤ محمد اقبال ، ماجد فوز ، قاضی جلال اور دوسرے صحافی اور دانشور وں کے ساتھ لالہ صدیق بلوچ بھی موجود تھے ۔ اس طویل ٹرانسمیشن میں لالہ صدیق کی باتیں ، مشورے اور ہنسی مذاق چلتا رہا ۔

1997ء کے الیکشن کے حوالے سے الیکشن آور میں سردار عطاء اللہ مینگل ، میر حاصل خان بزنجو کے ساتھ صدیق بلوچ اور سلیم شاہد نے ان کی پارٹی منشور اور سیاست کے نشیب و فراز کے بارے میں بے باکانہ سوالات کئے ۔

1999ء میں اس وقت کے وزیر اطلاعات مشاہد حسین سید سے پروگرام ’’ اوپن فورم ‘‘ میں صدیق بلو چ نے برائے راہ راست سوال جواب کیا تھا۔لالہ صدیق بلوچ کے ساتھ ٹی وی پروگراموں کے علاوہ سیندک، گوادر ، کراچی ، اسلام آباداور شمالی علاقوں کے دورے کئے ۔ ان کو میں نے قریب سے دیکھا۔

خوش اخلاق ، مہمان نواز ، سادہ طبیعت ، اور خوش پوش شخصیت کے مالک تھے ۔دھیمے لہجے میں بلا کی گفتگو کرتے تھے ۔ مجھے یاد ہے جب اگست 2004ء میں بلوچستان کے 23رکنی صحافیوں کے مطالعاتی دورہ شمالی علاقہ جات ، گلگت ، راکا پوشی اور ایوبیہ نیشنل پارک کا دورہ کیا ۔ اس وفد میں سب سے سینئر صحافی لالہ صدیق بلوچ تھے ان کی رہنمائی خلوص اور پیار کو سب نے محسوس کیا ۔ وہ ہمارے لیڈر تھے ، جہاں بھی جاتے لالہ صدیق بلو چ نمایاں نظرآتے ۔

سیمیناروں اور ورکشاپس پر موقع کی مناسبت سے سوالات کرتے اور ان سوالات میں اپنے آپ کو جتا نا نہیں ہوتا تھابلکہ ان اداروں او ر شخصیات کی اصلاح اور رہنمائی کا پہلو ہوتا تھا۔ اس وفد میں ایوب ترین ، نو ر خان محمد حسنی ، ملک سراج اکبر ، محمدعاطف ، سلطان احمد شاہوانی ، وطن یار خلجی ، اسلم بلوچ ، عبداللہ بلوچ اور آئی یوسی این کے دوست شامل تھے ۔

لالہ صدیق بلوچ صحافت کے میدان کے غازی تھے ۔ صدر ، وزیراعظم اور دیگر رہنماؤں سے بلاجھجک سوالات کرتے ۔ خاص طور پر بلوچستان کی پسماندگی او ر ترقی کے حوالے سے ان کے سوالات چبھنے والے ہوتے ۔

میں سمجھتا ہوں کہ لالہ صدیق بلوچ کے جانے سے نہ صرف بلوچستان بلکہ پاکستانی صحافت کا ایک روشن ستارہ ڈوب گیا ۔ اس طرح کے صاف گو ، نڈر ، اور بیباک صحافی جو نہ بکے اور نہ جھکے ۔ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں ۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ لالہ صدیق بلوچ کو اپنی جوار رحمت میں جگہ دے اور پس ماندگان کو صبر کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین