|

وقتِ اشاعت :   February 16 – 2018

سینیٹ کی ذیلی کمیٹی برائے منصوبہ بندی و ترقیات اور اصلاحات کے کنوینرسینیٹر آغا شاہ زیب خان درانی کی زیرصدارت گزشتہ روز منعقد ہونے والے اجلاس میں گوادر میں صاف پانی کی فراہمی اورانکاڑہ ڈیم کی تکمیل نہ ہو نے کا ایجنڈا زیر بحث آیا۔

سینیٹر محمد طلحہ محمود کی طرف سے ایوان بالا کے اجلا س میں پوچھے گئے سوال پر متعلقہ حکام سے تفصیلی بریفنگ لی گئی۔

چیف سیکرٹری بلوچستان، ایڈیشنل چیف سیکرٹری بلوچستان ڈویلپمنٹ کی اجلاس میں عدم شرکت پر متعلقہ حکام کو نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ ہوا۔

کنوینئر کمیٹی سینیٹر آغاشاہ زیب خان درانی نے کہا کہ بغیر منصوبہ بندی شروع کیے گئے منصوبہ جات پر قومی خزانے کی بھاری رقوم خرچ کی جاتی ہیں اور منصوبے تاخیر کا شکاربھی ہوجاتے ہیں۔

انکاڑہ ڈیم کی فزیبلٹی، پی سی ون بنانے اور منظورکرنے والے ذمہ دار سرکاری افسران کیخلاف کارروائی کرکے رپورٹ پیش کی جائے۔

15 کروڑ روپے کا منصوبہ ایک ارب کی لاگت تک پہنچا یاگیا۔انکاڑہ ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش بھی کم ہے اور گوادر کو پانی بھی فراہم نہیں کیا گیا۔

بریفنگ میں بتایا گیا کہ پلانٹ کے لیے ایک ارب روپے کے فنڈز فراہم کیے گئے۔وفاقی حکومت نے 2012 میں مکمل فنڈزفراہم کیں۔2016 میں پلانٹ صوبائی حکومت کے حوالے کیا گیا۔

پلانٹ 20 روز تک چلا اور اس کے بعد بند ہوگیا۔گوادر واٹر فلٹریشن پلانٹ کی ڈیزائننگ غلط کی گئی۔ڈی سیلیٹنیشن پلانٹ کے فلٹر ناکارہ ہوگئے عمارت خستہ حالی کا شکار ہے۔گوادر میں ڈی سیلی ٹیشن پلانٹ کو چھ ماہ میں بحال کیا جائے گا۔

اس منصوبے پر 80کروڑ روپے کی لاگت آئے گی۔گوادر میں ڈی سیلی ٹیشن پلانٹ چین اور ایف ڈبلیو اوچلانا چاہتے ہیں۔

فی گیلن پانی کی کم قیمت کی پیش کش کی گئی ہے۔ پاکستان کے پاس یہ منصوبہ چلانے کی صلاحیت نہیں ہے۔ اخبار میں ٹینڈر کا اشتہار مشتہر کیا گیا ہے جس پر کمیٹی نے سفارش کی کہ بین الاقوامی سطح کی مشہور کمپنیوں کو بھی ٹھیکے میں شامل کیا جائے۔

سینیٹر محسن لغاری نے کہا کہ بلوچستان حکومت کی نا اہلی کی وجہ سے پلانٹ بند ہوا۔سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ گوادر میں صاف پانی کی قلت ہے عوام سراپا احتجاج ہیں۔

کمیٹی ممبران نے کہا کہ پلانٹ کی مرمت پر دس لاکھ روپے لگتے تھے وہ نہیں لگائے گئے۔ غیر ذمہ داران افسران کے خلاف کارروائی کی جائے۔کمیٹی نے گوادر کا دورہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ڈی سیلی ٹیشن پلانٹ بند پڑا ہے۔ فلٹر خراب ہوچکے ہیں، عمارت میں دراڑیں پڑچکی ہیں۔

ذمہ داران کیخلاف خواہ وہ ملازمت میں ہیں یا ریٹائرڈ ہوں کارروائی کی جائے۔ پراجیکٹ ڈائریکٹر نے بتایا کہ گوادر شہر میں پانی فراہمی پر ماہانہ 18سے 22کروڑ خر چ ہوتا ہے۔

پورے ضلع کو 18لاکھ گیلن سے زائد پانی فراہم کرتے ہیں۔ میرانی ڈیم کے پانی میں ٹی ڈی ایس 467ہے۔ پانی کا معائنہ پی سی ایس آر سے کروایا گیا۔

ضلع گوادر میں پانی کی فراہمی کے حوالے سے ایوان بالا میں آواز بلند کرنا اچھی بات ہے مگر اس کے ساتھ ہی اس اہم مسئلہ کو حل کرنا اور اسے پایہ تکمیل تک پہنچانا بھی عوامی نمائندوں کی ذمہ داری بنتی ہے۔

گزشتہ کئی برسوں سے گوادر میں پانی کا مسئلہ موجود ہے مگر اسے مستقل بنیادوں پر حل نہیں کیاجارہا ۔

میرانی ڈیم سے پانی کی فراہمی مستقل بنیادوں پر حل ہوسکتی ہے ، حکومت ٹینکرزمالکان کو گوادر کے عوام کو پانی فراہمی کے پیسے دے رہی ہے جوحکومتی خزانے پر ایک اضافی بوجھ ہے اگر اسی رقم کو میرانی ڈیم منصوبے پر خرچ کئے جائیں تو گوادر میں پانی کامسئلہ مستقل بنیادوں پر حل ہو سکتا ہے اور اس کے ساتھ حکومت پر اضافی مالی بوجھ بھی نہیں رہے گا۔