|

وقتِ اشاعت :   May 27 – 2018

بلوچستان کے اندر ابن الوقت سیاست دانوں کی کوئی کمی نہیں، جن کی نظریں خالصتاً اقتدار اور مفادات پر جمی رہتی ہیں۔ بدعہدی، دغا اور چال بازیوں کو سیاست، جمہوری اصول اور روایات کا نام دیا جاتا ہے۔ 

یہ لوگ مقتدر حلقوں کے اشاروں پر اپنا قبلہ تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ ایک بڑی تعداد ان موقع پرستوں کی نئی جماعت میں جمع ہوگئی ہے، یعنی بلوچستان میں سیاست کے نام پر مستقبل کی پیش بندی ’بلوچستان عوامی پارٹی‘ کے نام سے ہوئی ہے۔ اس میں کئی ایسے نام ہیں جو منتخب ہوتے آرہے ہیں، اس لیے آئندہ ہونے والے انتخابات میں اس جماعت سے وابستہ افراد کی کامیابی کے امکانات روشن ہیں۔

جیسا کہ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ مقتدرہ کی اس جماعت کی داغ بیل 29 مارچ کو ڈالی گئی اور اس میں اکثریت نوازشریف کو چھوڑنے والوں کی ہے، اور سب نے حکومت کے آخری مہینوں میں وفاق کی زیادتیوں کا رونا روکر عوام کو بے وقوف بنانا شروع کردیا، یا مسلم لیگ (ن) سے علیحدگی کے لیے بلوچستان کی محرومیوں اور وفاق کی عدم دلچسپی و تعاون کو جواز کے طور پر پیش کیا۔

بلوچستان عوامی پارٹی کی مرکزی کونسل کا اجلاس 15مئی کو بوائے اسکاؤٹس کے سبزہ زار پر منعقد ہوا جس میں جام کمال صدر اور منظور کاکڑ سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے۔ جام کمال جن کے پاس وزیر مملکت برائے پیٹرولیم کا قلمدان تھا، ان کے ساتھ دوستین ڈومکی (جو وزیرمملکت برائے سائنس و ٹیکنالوجی تھے)، اور رکن قومی اسمبلی خالد مگسی نے 5 اپریل2018ء کو اسلام آباد پریس کلب میں مشترکہ پریس کانفرنس میں مسلم لیگ (ن) کو خیرباد کہہ دیا۔ 

اس کے بعد10 مئی کو یہ تین حضرات اور اقلیتی رکن قومی اسمبلی خلیل جارج بھٹو کوئٹہ پریس کلب میں سعید احمد ہاشمی کی قیادت میں پریس کانفرنس کے ذریعے بلوچستان عوامی پارٹی میں شامل ہوئے۔ خلیل جارج بھٹو کو مسلم لیگ (ن) نے سڑک سے اٹھا کر قومی اسمبلی کا رکن بنایا۔ سعید احمد ہاشمی بزنس مین ہیں۔ پتا نہیں کیوں اِس شخصیت کو سیاست کا ماہر کہا جاتا ہے! اور اب تو وہ خود کو بلوچستان عوامی پارٹی کے بانی کے طور پر متعارف کراتے ہیں۔ 

اس کی اہلیہ ڈاکٹر رقیہ ہاشمی مشیر خزانہ ہیں جنہیں بلوچستان اسمبلی کے اندر بعض ارکان کے نامناسب رویّے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ انہوں نے مشیر خزانہ کے عہدے سے احتجاجاً گورنر اور وزیراعلیٰ کو تحریری استعفیٰ پیش کردیا۔ اسمبلی میں بجٹ پر عام بحث جاری تھی مگر مشیر خزانہ استعفے کے بعد اجلاسوں میں شریک نہ ہوئیں۔ چناں چہ وزیراعلیٰ کو ایوان میں مطالباتِ زر پیش کرنا پڑے۔ 

بہرحال اس پارٹی کی تشکیل میں یہ سب جٹ گئے تھے۔ جام کمال کے ساتھ شامل ہونے والے اراکین قومی اسمبلی کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے ساڑھے چار سال کا عرصہ بہت مشکل میں گزارا ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے سینیٹ کے حوالے سے مشورہ کیا اور نہ ہی ان کے حلقوں میں پیسہ خرچ ہوسکا ہے، اور یہ کہ بڑی پارٹیوں نے چھوٹے صوبوں کے ساتھ زیادتیاں کی ہیں۔ 

حقیقت یہ ہے کہ ان کو اب سہانا مستقبل بلوچستان عوامی پارٹی میں دکھائی دینے لگا ہے، اور جام کمال صوبائی نشست پر بھی الیکشن لڑیں گے۔ وہ بلوچستان عوامی پارٹی کی جانب سے وزارتِ اعلیٰ کے امیدوار ہوں گے۔ جام کمال لسبیلہ کے ضلع ناظم بھی رہے ہیں۔ ان کے والد جام یوسف مرحوم2002ء میں بلوچستان کے وزیراعلیٰ تھے، ان کا تعلق مسلم لیگ (ق) سے تھا۔ 

ان کے دورِ وزارتِ اعلیٰ میں نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت کا سانحہ پیش آیا لیکن جام یوسف نے وزارتِ اعلیٰ کا منصب نہ چھوڑا، حالانکہ اس واقعے کے بعد اکتوبر 2016ء میں قلات میں گرینڈ بلوچ جرگہ بھی منعقد ہوا۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے بعض رہنما یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ ان کی مسلم لیگ (ن) سے علیحدگی کی ایک وجہ ختمِ نبوت کے قانون میں مبینہ تبدیلی کی کوشش بھی ہے۔ 

جام کمال باریش شخص ہیں، تعلق تبلیغی جماعت سے بھی رہا ہے۔ ان کے والد جام یوسف ویڈیو گیمز کھیلنے اور مو سیقی کے شوقین تھے۔ خود بھی تفریح طبع کے لیے گا لیتے تھے۔ جام کمال کے دادا جام میر غلام قادر بلوچستان کی پہلی اسمبلی یعنی1970ء کی اسمبلی میں 1973ء سے1976ء تک وزیراعلیٰ رہے۔ اس سے پہلے سردار عطاء اللہ خان مینگل وزیراعلیٰ تھے جن کی حکومت ختم کردی گئی تھی۔ اس طرح جام غلام قادر وزیراعلیٰ بن گئے۔ 

جام غلام قادر اس کے بعد اسپیکر بنے۔ چنانچہ 1977ء کے انتخابات کے بعد جام غلام قادر پھر بلوچستان اسمبلی کے اسپیکر منتخب ہوئے۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں بلوچستان کی تیسری اسمبلی وجود میں آئی تو جام غلام قادر 1985ء سے1988ء تک ایک مرتبہ پھر صوبے کے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے۔ 2002ء کے عام انتخابات کے بعد وزارتِ اعلیٰ کی کرسی پر جام یوسف متمکن ہوئے اور پانچ سال تک حکومت کی۔

مگسی خاندان بھی بلوچستان عوامی پارٹی کے قریب ہوگیا ہے۔ خالد مگسی نے تو باقاعدہ شمولیت اختیارکرلی۔ البتہ نواب ذوالفقار علی مگسی کی نگاہ حالات کے رخ پر لگی ہے۔ نواب ذوالفقار علی مگسی وزارتِ اعلیٰ کے لیے موزوں شخصیت ہیں مگر وہ کٹھ پتلی وزیراعلیٰ بننا پسند نہیں کریں گے۔ بلوچستان عوامی پارٹی کا اگر وزیراعلیٰ بنتا ہے تو وہ جی حضوری کرنے والا شخص ہی ہوگا۔ اس گروہ کے پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے ساتھ یکساں مراسم قائم ہیں۔

بلوچستان عوامی پارٹی نے بلوچستان کی محرومیوں کا سلوگن بلند کیا ہے۔ یہ غیر فطری جماعت اپنے قیام کے ساتھ ہی گروہ بندیوں کا شکار ہوئی ہے۔ آنے والے عام انتخابات کے بعد ان کے درمیان رسّاکشی دیدنی ہوگی۔ دیکھا جائے تو یہ بدقسمتی ہی ہے کہ اس صوبے پر بلوچستان عوامی پارٹی کی حکومت مسلط کرنے کی تدبیریں ہورہی ہیں۔ اس سے بڑھ کر بلوچستان سے زیادتی اور کیا ہوسکتی ہے!