|

وقتِ اشاعت :   July 7 – 2018

جھالاوان کا صدر مقام خضدار کا شمار ان خوش قسمت علاقوں میں ہوتا ہے جو لیڈر پیدا کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھنے والی زمین ہے ،اب اس بات کو بد قسمتی کہیں یا کہ حالات کی ستم ظریفی یہاں سے پیدا ہونے والی قیادت کبھی ایک پلیٹ فارم پر زیادہ دیر تک ایک ساتھ چل نہیں سکتے اور یہی سے اس شہر کی بد قسمتی صوبے کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے ۔

نیب کی سیاست کو دیکھیں یا کہ مشترکہ بی این پی کی سیاست ملن اور بچھڑنے کا تاریخ دیکھا جائے تو ہمیں ہر کام میں اپنے ہی نظر آئیں گے ،جہاں خضدار کی شناخت قوم پرستانہ سیاست میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے ۔

وہی خضدار کی یہ شناخت بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ جب بھی قوم پرست پارٹیاں تقسیم کا شکار ہوئی ہیں اس تقسیم میں خضدار سے تعلق رکھنے والے قائدین سر فہر ست رہے ہیں اور اسی وجہ سے اب لوگ انضمام جیسے لوگ اور متحد جیسے نعرے پر یقین کرنا کم کر دیا ہے ۔

بحرحال ہم ماضی کو چھوڑ کر حال کی جانب آتے ہیں جونہی الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ملک میں عام انتخابات کا اعلان کیا وفاقی اور صوبائی اسمبلیاں اپنی آئینی مدت پوری کر کے ختم ہو گئیں تب سے خضدار میں طویل خاموشی کے بعد سیاسی سرگرمیاں شروع ہو گئی ہیں ۔

شہر کو نیشنل پارٹی ،بلوچستان نیشنل پارٹی ،بلوچستان عوامی پارٹی ،بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی ) پاکستان مسلم لیگ (ن) پاکستان پیپلز پارٹی سمیت مختلف پارٹیوں نے کچھ کے زیادہ کچھ نے کم جھنڈیوں سے سجایا گیا ہیں سیاسی شعبدہ بازیاں بھی عروج پر ہیں عوام کے لئے دودھ اور شہد کے نعرے بنانے کے دعوے ہر امیدوار کر کے بیچاری عوام سے داد وصول کر تے ہوئے نظر آتے ہیں ۔

ضلع خضدار میں ایک قومی اور تین صوبائی اسمبلی کی نشستیں ہیں جن میں حلقہ این اے 269 ،حلقہ پی بی 38 زہری کرخ و مولہ ،پی بی 39 خضدار فیروز آباد نال اور حلقہ پی بی 40 وڈھ ،اورناچ شامل ہیں۔

ضلع خضدار میں تا دم تحریر دو مضبوط پارٹیوں بلوچستان نیشنل پارٹی اور متحدہ مجلس عمل کے درمیان انتخابی اتحاد طے پایا ہے یہ اتحاد تینوں صوبائی اور ایک قومی اسمبلی کی نشست کے لئے ہیں ۔

قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 269 پر 2013 ء کے انتخابات میں جمعیت علماء اسلام اور نیشنل پارٹی کے مشترکہ امیدوار مولانا قمر الدین 25500 کے قریب ووٹ لیکر کامیابی حاصل کر لی تھی جبکہ دوسرے نمبر پر بلوچستان نیشنل پارٹی کے عبدالرؤف مینگل25400 کے قریب ووٹ لیکر قریب ترین حریف رہے، اتحاد ی جماعتوں کی بھر کوشش کے باوجود بی این پی نے تن تنہاء مقابلہ کیا اور کچھ ووٹوں سے ہار گئی ۔

اب اس نشست پر جمعیت علماء اسلام (ایم ایم اے ) کا بلوچستان نیشنل پارٹی کے درمیان انتخابی اتحاد ہے اس اتحاد کا مشترکہ امیدوار بلوچستان نیشنل پارٹی کے نامزد امیدوار سردار اختر جان مینگل ہے اس اتحاد کو عوامی سطح پر زیادہ زیر بحث لا یا جا رہا ہے انتخابات میں عوامی حمایت کی تبدیلی میں زیاد ہ دیر نہیں لگتی ان ستور کو لکھتے وقت تک عوامی حمایت اس اتحاد کے پلڑے کو بھاری کرنے کی حق میں نظر آ رہی ہے ۔

چونکہ پولینگ 25 جولائی کو ہونے ہے اس وقت تک یہ عوامی حمایت برقرار رہے گی یا اس میں تبدیلی آئے گی اس کا اندازہ قبل از وقت ہو گا ،حلقہ این اے 269 پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جانب سے سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری امیدوار نامزد ہیں اور نواب ثناء اللہ خان زہری اپنی زاتی حیثیت سے پہلے بھی اس حلقے سے بڑی تعداد میں ووٹ حاصل کی ہے ۔

پانچ سالہ حکومت جس میں ڈھائی سالہ وزرات اعلیٰ کا دور بھی شامل ہے کے بعد وہ دوبارہ عوام کے سامنے آئے ہیں ان کا کہنا ہے کہ میں کارکردگی کی بنیاد پر عوام سے ووٹ لیکر کامیابی حاصل کرونگا،ضلع خضدار میں ایک نئی اتحاد جھالاوان عوامی پینل کے نام سے جنم لے چکا ہے جس میں وڈھ ،نال ،ساسول ،زیدی سے قبائلی شخصیات بھی شامل ہیں ۔

اتحاد کی سرکردگی سابق تحصیل ناظم وڈھ میر شفیق الرحمن مینگل کر رہے ہیں اس اتحاد نے باڈڑی وڈھ کو سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا رکھا ہے شہید سکندر آباد سوراب سے لیکر ،بیزن پورنال تک سب انتخابی اتحاد کے لئے باڈڑی میں نظر آتے ہیں اس اتحاد کا حلقہ این اے 269 سے امیدوار قبائلی شخصیت میر شفیق الرحمن مینگل ہونگے ۔

یہ کہنا بالکل بھی غلط ہو گا کہ اس اتحاد کی کوئی عوامی حمایت نہیں اگر عوامی حمایت حاصل نہیں ہوتی تو کیوں نیشنل پارٹی کے سردار محمد اسلم بزنجو ،بلوچستان عوامی پارٹی کے میر رامین محمد حسنی ،بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی ) کے میر ظفر اللہ خان زہری انتخابی اتحاد کے لئے سوشل میڈیا پر آنے والی خبریں اور تصاویر یہ ثابت کر رہی ہے کہ ماسوائے بی این پی اور ایم ایم اے کے باقی زیادہ امیدوار حمایت حاصل کرنے اس اتحاد کے قیادت کے پاس گئے ہیں۔

یقیناًکوئی وجہ ہے کہ پارٹیاں یا شخصیات اس جانب متوجہ ہے ،بلوچستان عوامی پارٹی کے این اے 269 پر امیدوار میر خالد بزنجو ہے میرخالد بزنجو کا تعلق بزنجو شاہی خاندان سے ہیں اور سردار محمد اسلم بزنجو کے قریبی عزیز ہے ،نیشنل پارٹی کی ناراضگی کے بعد طویل سوچ بچار کے بعد انہوں نے بلوچستان عوامی پارٹی کو جوائن کر لیا ہے نال میں سوشل خدمات کی وجہ سے عوامی سطح پر اپنا ایک خاص حلقہ رکھتا ہے ۔

نیشنل پارٹی کے امیدوار سابق تحصیل ناظم خضدار محمد آصف جمالدینی ہے ،پاکستان پیپلز پارٹی کے عبدالرحیم خدرانی سمیت مختلف امیدوار اس حلقے پر قسمت آزمائی کر رہے ہیں ۔

اسی طرح حلقہ پی بی 38 زہری مولہ اور کرخ پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے نواب ثناء اللہ خان زہری ،بلوچستان نیشنل پارٹی اور ایم ایم اے کے مشترکہ امیدوار وڈیرہ عبدالخالق موسیانی ،بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی ) کے میر اسرار اللہ خان زہری جبکہ جھالاوان عوامی پینل کی جانب سے سابق تحصیل ناظم وڈھ میر شفیق الرحمن مینگل امیدوار ہیں ۔

اس حلقے کو سب سے زیادہ بار نواب ثناء اللہ خان زہری جیت چکے ہیں 25 جولائی کو اس حلقے پر کانٹے کا مقابلہ ہوگا جیتنے والا امیدوار بہت معمولی مارجن سے اپنے حریفوں کو جیتے گا قبائلی دشمنیوں کی وجہ سے اس حلقے کو انتخابات کے حوالے سے احساس ترین شمار کیا جارہا ہے ۔

حکومت کو چائیے کہ اس حلقے میں سیکورٹی کی صورتحال کو بہتر سے بہتر کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں تا کہ ووٹر آزادی اور بلا خوف اپنی رائے دیہی استعمال کر سکیں صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی بی 39 خضدار نال اس حلقے پر 2008 کے انتخابات اور 2013 ء کے انتخابات میں کانٹے کا مقابلہ ہوتا رہا ہے اور اس بار بھی اس حلقے پر کانٹے کا مقابلہ ہو گا۔

اس حلقے میں قبائلی ووٹوں کے ساتھ ساتھ سیاسی شعور رکھنے والے نوجوانوں کی بھی بہت بڑی تعداد میں ووٹ ہیں اور وہ اس بار بڑے جوشیلے انداز میں اپنا ووٹ کاسٹ کرنے کے لئے تیار ہیں خضدار نال فروز آباد پر مشتمل اس حلقے میں متحدہ مجلس عمل اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے مشترکہ امیدوار میر یونس عزیز زہری ہے ،نیشنل پارٹی کے امیدوار اس حلقے سے سابق منتخب ایم پی اے سردار محمد اسلم بزنجو ہے ۔

بلوچستان عوامی پارٹی کی جانب سے ڈسٹرکٹ کونسل خضدار کے چیئرمین آغا شکیل احمد درانی میدان میں ہیں ،بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی ) کی جانب سے میر اسرار اللہ خان زہری نامز ہیں اس کے علاوہ پیپلز پارٹی کی جانب سے خالد محمود ایڈووکیٹ،پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جانب سے میر عبدالرحمن زہری اور تحریک انصاف کی جانب سے عبدالرحمن کرداور آزاد امیدوار بابا شفیق الرحمن چنال بھی امیدوار ہیںیہ حلقہ شہری اور دیہی علاقوں پر مشتمل ہے ۔

کارپوریشن (خضدار سٹی اور فیروز آباد ) میں رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد تقریبا 62000 ہے جبکہ تحصیل نال میں ٹوٹل ووٹوں کی تعداد 21000 ہے اس حلقے میں بھی مقابلہ ہمیشہ کی طرح کانٹے کا ہو گا ۔

قریب ترین حریفوں میں بی این پی و ایم ایم اے،،،،نیشنل پارٹی ،،،،بلوچستان عوامی پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) ہونگے امید کیا جا رہا ہے کہ اس بار خضدار شہر میں ووٹنگ کاٹرن آوٹ بہت زیادہ ہو گااگر ایسا ہوا تو نال سے آنے والے نتائج کو خضدار بیلنس کرے گا اگر خضدار سٹی سے ٹرن آوٹ کم رہا تو اس کا نقصان سٹی سے تعلق رکھنے والے تمام امیدواروں کو یکساں ہو گا ۔

تمام امیدواروں کی یہ کوشش ہے کہ خضدار سٹی اور فیروز میں آباد کے علاوہ نال اور کودہ کوڑاسک سے بھی زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کریں جو بھی امیدوار ایسا کرنے میں کامیاب ہو گیا ۔

اس کی جیت یقینی ہے سیاسی سرگرمیاں ضلع کے دوسرے صوبائی حلقوں کی نسبت خضدار نال میں زیادہ ہو رہی ہے تمام امیدوار عوام سے بڑے بڑے وعدے کر رہے ہیں ہونا تو یہ چائیے تھا کہ امیدوار پریس کانفرنسوں کے زریعے اپنی اپنی انتخابی منشور جس کا تعلق صرف خضدار کے مسائل سے ہوتا کا اعلان کرتے مگر ابھی تک پارٹیوں کے نامز امیدار اپنی مرکزی قیادت کی جانب دیکھ رہے ہیں کہ وہاں سے انتخابی منشور آئے گا ۔

پھر یہاں اظہار ہو گی فلحال اب تک اندھیرے میں تیر چلا کر عوام کے مسائل کو حل کرنے کی بھر پور دعوے ہو رہے ہیں حلقہ بی پی 40 سے بی این پی اور متحدہ مجلس عمل کا مشترکہ امیدوار سردار اختر جان مینگل ہونگے ،جھالاوان عوامی پینل نے میر نعمت اللہ بزنجو کو میدان میر اتار دیا ہے جبکہ نیشنل پارٹی کی جانب سے سردار محمد اسلم بزنجو کے فرزند سردار زادہ شاہ میر بزنجو قسمت آزمائی کر رہے ہیں ۔

نال کے کچھ علاقوں کو اس حلقے میں شامل کیا گیا ہے جبکہ اورناچ میں بزنجو قبیلہ کی ایک بڑی تعداد آباد ہے ان کا فائدہ سردار زادہ میر شاہ میر بزنجو کو ہو سکتا ہے مگر اس کے باوجود یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس انتخابی حلقے سے بی این پی اور ایم ایم اے کے مشترکہ امیدوار سردار اختر جان مینگل کی پوزیشن مستحکم ہو گی ۔

البتہ اگر نیشنل پارٹی اور جھالاوان عوامی پینل انتخابی اتحاد کے طرف جاتے ہیں تو پھر ان کے نامزد کردہ امیدوار کسی ممکنہ حد تک مقابلہ کی کنڈیشن میں آ جائے گی ۔

اسی طرح اگر ہم ڈسٹرکٹ شہید سکندر آباد کا انتخابی جائز ہ لیں تو حلقہ پی بی 36 سوراب سے بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی )کے ظفر اللہ خان زہری ، آزاد امیدوار نواب زادہ میر نعمت اللہ خان زہری ،بلوچستان عوامی پارٹی کے امیدوار میر رحمین محمد حسنی ،جھالاوان عوامی پینل کے امیدوار میر شفیق الرحمن مینگل ، جمعیت علماء اسلام کے حافظ محمدابراہیم لہڑی میدان میں ہیں ۔

اس حلقے پرپہلے چار امیدواروں کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہوگا دو بھائی نواب زادہ میر نعمت اللہ خان زہری اور نواب زادہ میر ظفر اللہ خان زہری اس حلقے سے مقابلے میں ہیں ان کے مد مقابل ہونے کا فائدہ تیسری فریق کو ہو سکتا ہے۔

قلات و منگچر کے کے حلقہ پی بی 37 سے بلوچستان عوامی پارٹی کے نامزد امیدوار میر ضیاء اللہ خان لانگو ،بلوچستان نیشنل پارٹی کی جانب سے ارباب نعیم دہوار ،متحدہ مجلس عمل کی جانب سے سردار زادہ میر سعید احمد لانگو ،امیدوار آغا عرفاق کریم احمد زئی میدان میں ہیں ۔

اس حلقے سے ایم ایم اے کے امیدوار میر سعید احمد لانگو ،بی این پی کے امیدوار ارباب نعیم دہوار اور بلوچستان عوامی پارٹی کے میر ضیاء اللہ لانگو کے درمیان سخت مقابلے کا امکان ہے اگر اس دوران ان تینوں میں سے دو جماعتوں کا اتحاد ہوا تو اتحادی جماعت کا کامیابی حاصل ہو گی ۔

حلقہ این اے 268 قلات ،مستونگ اور شہید سکندر آباد پر ایم ایم اے کے امیدوار آغا محمود شاہ ،بی این پی (مینگل ) کے امیدوار سابق چیئرمین بی ایس او منظور بلوچ ،پاکستان مسلم لیگ کے نواب ثناء اللہ خان زہری ،نیشنل پارٹی کے نواب محمد خان شاہوانی اور بلوچستان عوامی پارٹی کے سردار نور احمد بنگلزئی قابل زکر امیدواروں میں شامل ہیں ۔

قومی اسمبلی کی اس نشست پر ایم ایم اے کے امیدوار کی پوزیشن نسبتاً مستحکم نظر آتی ہے اگر اس دوران کوئی اتحاد وجود میں آیا تو نتائج تبدیل ہو سکتے ہیں ضلع خضدار سے الیکشن لڑ نے والے امیدواروں جن میں بی این پی اور ایم ایم اے کے نامزد امیدوار برائے حلقہ این اے 269 سردار اختر جان مینگل سے جب میں نے یہ سوال پوچھا کہ ان کے انتخابی ایجنڈہ کیا ہے ۔

تو ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان سے پسماندگی کا خاتمہ ،ہر بچہ سکول میں ،تمام تعلیمی اداروں کے بنیادی مسائل حل کرکے انہیں جدید خطوط پر استوار کرنا ،واٹر لیول کو کنٹرول کرنے کے لئے ڈیموں کی تعمیر ،جدید ہسپتالوں کی تعمیر ،مواصلاتی نظام کو بہتر کرنا ہماری انتخابی منشور میں اولین حیثیت رکھتے ہیں ان کا کہنا تھا کہ ہمیں خدشہ ہے کہ انتخابات میں ہماری مینڈیٹ کو چورانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے ہم جمہوری لوگ ہے جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں ۔

اگر اس بات 2013 ء کی طرح ہماری عوامی مینڈیٹ کو چورانے کی کوشش کی گئی تو اس کے نقصانات خطرناک ہونگے ،اسی سوال کو ہم نے حلقہ این اے 269 کے امیدوارسابق وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری سے پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ میری حکومت کاگلہ گھونٹ کر جاری ترقیاتی اسکیمات کو ختم کر دیا گیا یوں ہمارا جو ایجنڈہ تھا وہ نامکمل ہو گیا ۔

پاکستان مسلم لیگ کی منشور میں عوام کی خوشحالی ،ترقی یافتہ بلوچستان ،اور بلوچستان سے پسماندگی کا خاتمہ شامل ہیں اس کے علاوہ جدید تعلیمی اداروں اور جدید ہسپتالوں کے قیام ور ڈیموں کی تعمیر بھی ہماری انتخابی منشور میں اولین حیثیت رکھتے ہیں ۔

اسی سوال کو جب میں نے جھالاوان عوامی پینل کے سربراہ و حلقہ این اے 269 سے پینل کے نامز امیدوار میر شفیق الرحمن مینگل نے پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ ہم مضبوط پاکستان اور خوشحال بلوچستان کے نعرے کو لیکر عوامی عدالت میں جا رہے ہیں اگر عوام میں جھالاوان عوامی پینل کے نامزد امیدواروں کو ووٹ دیکر کامیاب کیا تو ہم علاقے سے نا انصافیوں کا خاتمہ کر کے عوامی مسائل کے حل کی بھر پور کوشش کریں گے ۔

سابق حکومتوں اور نمائندوں نے حلقہ این اے 269 سے منتخب ہونے کے بعد علاقے کے مسائل کے حل کی جانب کوئی توجہ نہیں دی اگر عوام نے ہمیں اپنی خدمت کا موقع دیا تو ہم علاقے کو مثالی بنا دیں گے۔

حلقہ این اے 269 سے نیشنل پارٹی کے نامزد امیدوار محمد آصف جمالدینی کا کہنا تھا کہ نیشنل پارٹی نے اپنی سابق دور حکومت میں نہ صرف ضلع خضدار بلکہ پورے بلوچستان میں تعلیمی انقلاب برپا کیا ،ترقیاتی اسکیمات کی بنیاد رکھی ،ڈیمز و شاہرائیں تعمیر کیں، یونیورسٹیاں بنائی ،دیہی علاقوں کے تعلیمی اداروں کو اپ گریڈ کیا ۔

اب عوام نے نیشنل پارٹی کو اپنی خدمت کا موقع دیا تو ہم اسی کارکردگی کے تسلسل کو جاری رکھنے کی بھر پور کوشش کریں گے یہی سوال جب میں نے پیپلز پارٹی کے نامز امیدوار برائے حلقہ این اے 269 عبدالرحیم خدرانی سے پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی وہ واحد پارٹی ہے جس کی قیادت نے ہمیشہ بلوچستان کے عوام کے مسائل کو حل کرنے کی بھر پور کوشش کی بلوچستان پیکج اس کا واضح مثال ہے بلوچستان پیکج کے زریعے ہزاروں نوجوانوں کو ملازمتیں دے گئیں ۔

 مستحق خواتین میں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت اربوں روپے تقسیم کئے گئے پیپلز پارٹی کی انتخابی منشور میں عوام کے مسائل عوام کی دیلیز پر حل کرنے کو اولیت حاصل ہوہ گی ،بلوچستان عوامی پارٹی کے نامزد امیدوار برائے حلقہ این اے 269 میر خالد بزنجو کا اس متعلق کہنا تھا کہ بلوچستان عوامی پارٹی کی قیادت بلوچستان کے نوجوانوں پر مشتمل ہے عوام تمام پارٹیوں کے آزما چکی ہے ۔

مگر انہیں مایوسی کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوا اب عوام کی نظریں نئی بننے والی جماعت کی جانب ہے اگر حلقہ کے عوام نے مجھے یا میری جماعت کو اپنی خدمت کا موقع فراہم کیا تو ہم ضلع کے بنیادی مسائل جن میں پانی ،بجلی ،صحت ،مواصلات ،تعلیم اور دیہی علاقوں کے ترقی کے حوالے سے عوام کو درپیش مسائل پہلی فرست میں حل کرنے کی کوشش کرئینگے ۔

پاکستان تحریک انصاف کے نامزد امیدوار برائے حلقہ این اے 269 شفیق الرحمن ساسولی کااس حوالے سے کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف ملک سے نا انصافی ،اقربا پروری ،لاقانونیت کے خلاف جد و جہد کر رہی ہے اگر عوام نے پاکستان تحریک انصاف اپنی خدمت کو موقع دیا تو ہم مرکزی منشور کے تحت ضلع خضدار کے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں گے ۔

اس تحریر میں انفرادی طو رپر یہ تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔ ضروری نہیں کہ تجزیہ سو فیصد درست ہو آج تک کی صورتحال یہی ہے مگر ہو سکتا ہے کہ پچیس جولائی تک نئے انتخابی اتحاد بن جائیں اگر ایسا ہوتا ہے تو صورتحال تبدیل ہو سکتی ہے ۔