|

وقتِ اشاعت :   October 20 – 2018

کوئٹہ : صوبائی وزراء اور اراکین اسمبلی نے کہا ہے کہ بلوچستان میں تعلیمی پسماندگی ختم کرنے کے لئے حکومت کے ساتھ ساتھ دیگر مخیرادارے بھی تعاون کریں بلوچستان میں حکومت نے تعلیمی ایمرجنسی نافذ کر دی ہے جس کے دوردرس نتائج برآمد ہونگے یونیسف ہر بچے تک تعلیم کی رسائی کے لئے کوشاں ہے ۔

اس وقت 202 اے ایل پی سینٹرز بلوچستان میں فعال ہیں جس میں 54 دینی مدارس بھی چل رہے ہیں ان خیالات کا اظہار صوبائی مشیر تعلیم محمد خان لہڑی ‘ اراکین صوبائی اسمبلی ثناء بلوچ ‘ مبین خلجی ‘ ملک نصیرشاہوانی ‘ بشریٰ رند ‘ شاینہ مہترزئی ‘ لیلہ کاکڑ ‘ ماجبین شیران نے یونیسف کے زیراہتمام مقامی ہوٹل میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔

مقررین نے کہا کہ ہم یونیسف کو مبارکباد دیتے ہیں کہ جن بچوں نے انا تعلیمی سلسلہ شروع کرکے اس پایہ تکمیل پہنچایا اسلام ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ تعلیم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے ہمیں سنجیدگی سے ان بچوں کے بارے میں سوچنا چاہئے جو سکولوں سے باہر ہیں ہم نے تعلیم کے لئے ہنگامی بنیادوں پر تعلیم کے لئے کام کرنا چاہئے ۔

انہوں نے 12 ہزار بچوں کو پسماندگی سے نکال کر پرائمری تک تعلیم دے رہے ہیں بلوچستان کا رقبہ اس وقت 347000 مربع کلومیٹر ہے جس میں 11 ہزار پرائمری سکول ہیں بلوچستان میں 40 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک پرائمری سکول ہیں 21 صدی میں بھی بلوچستان کے 70 فیصد بچے تعلیم سے محروم ہیں بلوچستان میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کی گئی ہے جس کے دور رس نتائج برآمد ہونگے ہر بچے تک تعلیم کی رسائی کے لئے کوشاں ہیں ۔

اس وقت 202 اے ایل پی سینٹرز بلوچستان میں فعال ہیں جس میں 54 دینی مدارس میں چل رہے ہیں محکمہ تعلیم بلوچستان کا شکریہ ادا کرتی ہے کہ انہوں نے اے یل پی کو بی ایس ڈی پی کا حصہ بنا دیا اور مستقبل میں بلوچستان کے تمام اضلاع میں سینٹرز کھولے جائیں گے ۔

بلوچستان میں متبادل طریقہ تعلیم کے لئے ایک منفرد ماحول ہے تعلیم ہی کے ذریعے غربت کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے اس وقت 11 لاکھ بچے بلوچستان میں سکولوں سے باہر ہیں جو کہ ایک المیہ ہے اساتذہ کی تربیت کے لئے 60 کروڑ روپے مختص کئے ہیں کمیونٹی سکولز بنانے کے 3.2 بلین روپے خرچ کئے جارہے ہیں اور 50 کروڑ روپے اے ایل پی سینٹرز کے لئے مخص کئے ہیں ۔