گوادر شہر پھر ڈْوب گیا

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

گوادر شہر میں 17 اپریل کو ہونے والی طوفانی بارشوں کے بعد اب تک مْتاثر ہونے والے علاقوں میں زندگی معمول پر نہ آسکی ہے۔ جگہ جگہ کئی فٹ پانی کھڑا ہے جس میں ملا فاضل چوک سمیت اہم شاہرائیں شامل ہیں۔ گوکہ بارشوں کے بعد برساتی پانی کو ٹھکانے لگانے کے لئے ڈی واٹرنگ آپریشن شروع کردی گئی ہے جس میں جی ڈی اے، ضلعی انتظامیہ اور میونسپل کمیٹی گوادر اِس کی نگرانی کررہے ہیں لیکن متاثرہ علاقے مکین اب تک ڈی واٹرنگ آپریشن سے مطمئن نہیں۔

کیا حق دو تحریک عام آدمی پارٹی بن جائے گی؟۔

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

26نومبر 2012ء میں انڈیا کی راج دھانی دہلی میں متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے شخص اروند کیجروال کی قیادت میں عام آدمی پارٹی کی بنیاد ڈالی گئی۔ اروند کیجر وال قطعی طورپر معروف شخصیت نہیں تھے لیکن وہ ملک کے زوال پذیر کلچر سے نالاں تھے۔ انہوں نے دہلی میں بجلی اور پانی کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف مہم چلائی تو عوام نے ان کا پورا ساتھ دیا جس کے بعد عام آدمی پارٹی پسے ہوئے عوام میں ایک مقبول جماعت کے طورپر ابھری کر سامنے آئی۔

کیا گوادر یونیورسٹی کے قیام کا خواب پورا ہوگا؟

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

اس وقت گوادر کے نوجوانوں کی جانب سے گوادر یونیورسٹی کے قیام کے لئے سوشل میڈیا کے تمام ذرائع پر #GwadarNeedsUniversity کی ہیشٹیگ کی کمپین جاری ہے۔ بالخصوص سماجی رابطے کی سب سے موثر ترین ویب سائیٹ ٹویئٹر پر یہ کپمین زوروں پر ہے۔ اس کے علاوہ گوادر یونیورسٹی کی کمپین کا پلے کارڈ گوادر کا ہر شہری تھامے ہوئے سوشل میڈیا پر گوادر یونیورسٹی کے قیام کا مطالبہ پیش کرتا ہوا نظر آتا ہے۔

تھیلسمیا مریضوں کی امیدیں

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

تھلیسیمیا مائنر میں مبتلا لوگ نارمل زندگی گزارتے ہیں۔ اگر تھلیسیمیا مائنر نارمل آدمی سے شادی کرے تو ان کے ہاں کوئی بھی تھیلیسیمیا بچہ پیدا نہیں ہوگا۔ تھیلیسیمیا انٹر میڈیا کے مرض میں مبتلا مریض ایک خاص دوائی کے استعمال سے ساری عمر خوشگوار زندگی گزارتے ہیں۔ تھلیسیمیا میجر کے مریضوں کو ساری عمر خون کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان میں تھلیسیمیا کے مرض میں مبتلا مریضوں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہے۔ ضلع گوادر میں بھی بڑی تعداد میں تھلیسیمیا کے مرض میں مبتلا بچے موجود ہیں لیکن ان کو سرکاری سرپرستی میں علاج و معالجہ کی خاطر خواہ سہولیات میسر نہیں۔

ماہی گیر کب محنت کش مانے جائیں گے؟

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

ماہی گیری کاکام انتہائی جانفشانی اور کھٹن کاموں میں شمار ہوتا ہے۔ ماہی گیر اپنے گھروں کے چولہے جلانے کے لیے سخت سے سخت موسمی حالات میں بھی اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر سمندری موجوں کا مقابلہ کر کے دو وقت کی روزی روٹی کا بندوبست کرتے ہیں۔ 

گوادر کے ماہی گیر دیمی زِر چھن جانے کے خدشہ کا شکار

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

گوادر کے مشرقی ساحل ( دیمی زِر) پرایسٹ بے ایکسپر یس وے منصوبے پر کام کاآغاز ہونے کے بعد مقامی ماہی گیروں کی بے چینی اور اضطراب روز بروز بڑھتی جارہی ہے ۔ مشرقی ساحل پر ایسٹ بے ایکسپر یس وے کا منصوبہ 140ملین ڈالر کی لاگت سے مکمل کیا جارہا ہے جس کامقصد گوادر بندرگاہ کو مکران ساحلی شاہراہ تک ایکسس دینا ہے ۔ 

گوادر ماسٹر پلان کی اپ گر یڈ یشن اور ما ہی گیروں کا مستقبل

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

گوادر کی آبادی ماہی گیروں کی بستی سے ما نوس تھی اب یہ شہر بین الاقوامی اہمیت حاصل کر چکا ہے جس کی وجہ یہاں پر قائم گہر ے بندرگاہ کا قیام اور سی پیک جیسی غیر معمولی منصوبے کا کلیدی درجہ پا نا ہے۔

’’گوادرپانی بحران کا مستقل حل تلاش کیا جائے‘‘

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

حالیہ بارشوں کے بعد گوادر شہر اور نواحی علاقوں میں پانی کا بحران وقتی طور پر ٹل گیا ہے بارشوں کے نتیجے میں آ نکاڑہ ڈیم میں پانچ فٹ پانی کا ذخیر ہ جمع ہوچکا ہے اور محکمہ پبلک ہیلتھ ( پی ایچ ای ) کا کہنا ہے کہ پانی کا ذخیر ہ بمشکل تین یا چار ماہ کے لےئے استعمال ہوسکے گا۔ واضح رہے کہ پورٹ سٹی گوادر کے علاوہ جیونی، پشکان، نگور اور سر بندن کی پانی کی ضر وریات آ نکاڑہ ڈیم سے پوری کی جاتی ہیں لیکن طو یل خشک سالی کے باعث آ نکاڑہ ڈیم گزشتہ سال کے آخر میں خشک ہوگیا تھا

بلوچ سیاست کے تضادات اور مردم شماری

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

بی ایس او کی تقسیم سے قبل اور نیپ کی سیاست کے بعد بلوچستان میں بادی النظر میں شعوری اور نظر یاتی سیاست کا فقدان نظر آتاہے ۔ پا رلیمانی سیاست کی راہدا ریوں میں سفر کر نے کی وجہ سے بلوچستان کی سیاست کی منزل گو یا آ ب و سراب کی نظر ہوگئی ہے ۔ اب یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ شا ید بلوچستان میں نظر یاتی سیاست دفن ہوگئی ہے ۔

بلوچستان کے ساحل پر غیر قانونی ٹرالنگ کے آسیب

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

بلوچستان کی ساحلی پٹی 770میل طو یل ہے یہ نہ صرف اپنی جغرافیائی محل و وقوع کی وجہ سے اہمیت کا حامل ہے بلکہ اپنے زرخیز اور قیمتی و نایاب آ بی حیات کی وجہ سے بھی اہم سمجھا جا تا ہے ۔ ڈام بندر سے لیکر جیونی کے نیلگوں پانی کے دہانے