پنجرہ پل

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

پنجرہ پل وادی بولان کے بیچ واقع ہے۔ وادی بولان اور گرد نواح میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران وقفے وقفے سے بارشوں کا سلسلہ جاری ہے اور سیلابی صورتحال نے سندھ بلوچستان قومی شاہراہ NA 65 کوبولان پنجرہ پل کے مقام پر راستہ مکمل بندکردیا ہے۔ پنجرہ پل زیر آب آنے کے بعد ہر قسم کی ٹریفک رک گئی ہے۔کوئٹہ سے پنجاب اور سندھ کا زمینی رابطہ منقطع ہو گیا ہے۔ ہزاروں گاڑیاں اور مسافر بولان میں مختلف مقامات پر محصور ہو کر گئے ہیں۔ کسی زمانے میں انگریزوں نے یہ پل بنایا تھا جو پنجرہ پل کے نام سے مشہور ہوا۔غالباً 1985 ء میں ایک زوردار سیلاب آیا جس کی وجہ سے یہ لوہے کا پل ٹوٹ گیا تھا اور پھر اس وقت یہاں سے تقریباً دس فٹ اوپر کرکے سیمنٹ سریا کے لمبے بلاکس سے مقامی سطح پرپل تعمیر کیا گیا۔ پل کے درمیان میں ایک گول پلر دیا گیا تھا، جس پر پہ پل کھڑا تھا۔

ڈوبتا بلوچستان خاموش انتظامیہ

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

بلوچستان میں طوفانی بارشوں نے تباہی مچا کے رکھ دی سیلابی ریلوں نے تو سب حدیں ہی مٹادیں اور پورے بلوچستان میں ہر طرف پانی ہی پانی بن گیا۔طوفانی بارشوں کا پانی اور سیلابی ریلے جہاں جہاں سے گزر رہے تھے وہاں موجود بستیوں کو اپنے ساتھ تنکوں کی طرح بہا کے لے جا رہے تھے۔ اس وقت بھی این ایف سی ایوارڈ کی مد میں بلوچستان کو فنڈز رقبے کے لحاظ سے نہیں بلکہ آبادی کی بنیاد پر دیئے جاتے ہیں۔ یہ بات سمجھ نہیں آ رہی کہ اس وقت ریاست اور حکومت کہاں ہے۔۔؟ فلڈ کنٹرول ادارے بھی شاید نیند کی گولیاں کھا کر خواب ِخرگوش کے مزے لے رہے ہیں۔اس وقت بھی بلوچستان میں محکمہ موسمیات نام کی کوئی چیز موجود ہی نہیں ہے۔ گوگل پر موسمیات کی رپورٹ جھوٹی ہوتی ہے جب ہمارے شہر میں بارش ہو رہی تھی تب گوگل موسم صاف بتا رہا تھا جو عبرت ناک بات ہے ۔محکمہ موسمیات بھی عوام کو سیلابی صورتحال سے پہلے سے آگاہ نہ کر سکی۔ پورے بلوچستان میں کل تین بڑی سڑکیں ہیں۔کراچی سے کوئٹہ جعفرآباد سے کوئٹہ پشین سے لاہور تک ان سڑکوں کا برا حال ہے یا تو ان کے پل گر جاتے ہیں یا تو پھر ٹریفک کی وجہ سے جام ہو جاتے ہیں حالیہ بارشوں کی وجہ سے بلوچستان میں مجموعی طور پر سینکڑوں گھرانے تباہ ہوگئے ہیں۔

آہ میرا بلوچستان ڈوب گیا

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

سیلاب سے رشتہ ہم بلوچستان کے باسیوں کا بہت پرانا ہے جب سے ہوش سنبھالا ہے تب سے یہ سیلاب آتے جاتے دیکھے ہیں کبھی دریا سندھ کا پانی ہمیں ڈبوتا ہے تو کبھی ہمیں ناڑی بینک، کبھی دریائے مولا تو کبھی بلوچستان کے ناکارہ سیم شاخ ہمیں پانی برد کرتے ہیں۔ ہمارے پیارے بلوچستان کے لوگوں کا گھر بار، اناج سب کچھ یہ پانی چھین لیتا ہے۔

سوال تو بنتا ہے..؟

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

حالیہ طوفانی بارشوں میں انگریزوں کے بنائے ہوئے پلوں میں سے ایک بھی نہیں ٹوٹا جبکہ اس ملک کے انجینئرز ٹھیکیدار منشی نمازی مولانا صاحبان وزیروں سرداروں کے لاڈلوں کے بنائے ہوئے سب پل پانی برد ہو گئے ہیں آخر کیوں۔۔۔۔؟ یہاں پر یہ سوال تو بنتا ہے۔۔۔.؟ انگریز انجینئرز نے جدید ٹیکنالوجی کے بغیر کامیاب پلیں بنائی تھیں جبکہ ہمارے دور کے تمام جدید ٹیکنالوجی کی بنی پلیں ناکارہ آخر کیوں ہوگئی ہیں۔۔۔؟ آخر ان سوالوں کا جواب کن لوگوں کے پاس ہے یہ کوئی نہیں جانتا ہے۔ ۔۔۔۔کہاں ہیں وہ تمام پاکستانی حکمران۔۔۔۔۔؟ کہاں ہیں اس ملک کے نمائندے۔۔۔؟ کہاں ہیں اس ملک کے ایم پی اے ایم این جو پل تعمیر کرنے کے دوران بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں کہ یہ پلیں سو سال تک چلیں گی۔ جو صرف ایک بارش میں ہی بہہ گئیں۔ اس وقت پورے بلوچستان میں چودہ سے زائد بڑے پل منہدم ہوچکے ہیں آخر کیوں۔۔۔؟ اس وقت کراچی کوئٹہ پل تاحال نہ بن سکا۔۔۔۔ جس کی وجہ سے ہزاروں لوگ گھروں میں پھنس گئے ہیں آخر کیوں۔۔؟ سی پیک روڈ خضدار ونگو کا پل جو چینی کمپنیوں نے بنایا تھا وہ بھی تباہ ہوکر سیلاب برد ہوگیا تاحال وہ بھی نہ بن سکا ہے آخر کیوں۔۔۔؟ پورے بلوچستان کو ملانے والی مین شاہراہیں حال بند پڑی ہیں اس وقت بلوچستان میں آمد و رفت کا نظام درہم برہم چکا ہے آخر کیوں۔۔۔؟ زمینی راستے برباد ہو گئے گھروں کے چھت گر کر تباہ ہوگئے۔

بلوچستان میں آبی بحران

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

پانی ایک بڑی نعمت ہے مگر آج کل بلوچستان میں صاف پانی انتہائی نایاب ہوتا جارہا ہے۔ لوگ بوند بوند پانی کو ترس رہے ہیں آج بھی بلوچستان کے لوگ جوہڑ اور تالابوں کا پانی پینے پر مجبور ہیں۔ پورے بلوچستان میں صرف سات اضلاع کے لوگ نہری پانی پینے پر مجبور ہیں جن میں پٹ فیڈر کینال اور کیرتھر کینال شامل ہیں۔ اس وقت بلوچستان کے حصے کا پانی صرف 10300 (دس ہزار تین سو) کیوسک ہے جو سندھ اور پنچاب کی ایک بڑی نہر سے بھی بہت کم ہے جو بلاشبہ ایک شرم ناک بات ہے۔

درد تو روز کا تماشہ ہے آج تھوڑا شدید ہے

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

آج ایک دل دہلانے والا واقعہ تربت میں پیش آیا جب بلوچستان کی خاتون صحافی شاہینہ شاہین کو دن دھاڑے شہید کیا گیا۔ آج پھر پیارا بلوچستان لہو لہان ہوا، آج پھر قربانی بلوچستان کے ایک خاتون کے حصے میں آئی۔ شاہینہ شاہین پی ٹی وی بولان میں مارننگ شو کی میزبان تھیں اور ساتھ بلوچی میگزین (دزگہوار) کی ایڈیٹر تھیں۔شاہینہ کا نام بلوچستان میں بے شمار لڑکیوں کے ناموں پہ رکھی جاتی ہے۔ شاہینہ نام کی ابتدائی تاریخ عربی زبان سے نکلتی ہے.شاہینہ نام کا مطلب چھوٹا عقاب باز عقاب شاہین ہے اور آج اس شاہین کو لوہے کی بنی گولیوں سے شہید کر دیا گیا۔

بلوچستان حکومت کو دعا کی اشد ضرورت ہے

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا آخر بلوچستان میں یہ سب کچھ کیسے ممکن ہو گیا۔ آخر بلوچستان حکومت کو فقیر کے ایک تعویز نے راتوں رات دبئی کے مد مقابل آ کھڑا کر دیا۔ پاکستان کے تمام صوبے، شمالی علاقہ جات،سندھ، کے پی کے اور پنجاب فقیر کے تعویز سے کیسے محروم رہ گئے تھے۔ آخر اتنا بڑا فقیر بلوچستان حکومت کے کیسے ہاتھ لگ گیا جس نے بلوچستان کی قسمت کو راتوں رات بدل دیا اور چار چاند کے بجائے چودھویں کے چاندوں سے سجا دیا۔پنجاب سندھ شمالی علاقہ جات اور کے پی کے کے لوگ اپنی جگہ مگر دنیا کے گورے چٹے لوگوں نے بھی بلوچستان کا رخ کیا تھا۔

پی پی ایچ آئی، مزدور دوستی کی شاندار مثال

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

ٹیلی ویژن پر ہمیشہ بلوچستان کے متعلق بری خبریں ہی ملتی ہیں، کہیں دہشت گردی تو کہیں ٹارگٹ کلنگ تو کہیں غداری،کہیں خون میں نہاتے بے گناہ شہری تو کہیں پر باغیانہ کاروائیاں۔ان لفظوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کے بلوچستان میں قتل و غارت کے سوا کچھ نہیں پایا جاتا۔ لیکن سوال ابھرتا ہے کہ کیا بلوچستان میں کوئی تعمیری سرگرمیاں یا کوئی مثبت کام نہیں ہوتا۔ اگر ہوتا ہے؟تو وہ بہت کم ہوتا ہے مگر ایسا نہیں۔حالیہ کرونا وائرس اور پھر لاک ڈاؤن نے تمام شعبوں کو سخت متاثر کیا ہے جس کی وجہ سے ہزاروں لوگ بے روزگار ہو گئے ہیں۔

پی پی ایچ آئی، مزدور دوستی کی شاندار مثال

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

ٹیلی ویژن پر ہمیشہ بلوچستان کے متعلق بری خبریں ہی ملتی ہیں، کہیں دہشت گردی تو کہیں ٹارگٹ کلنگ تو کہیں غداری،کہیں خون میں نہاتے بے گناہ شہری تو کہیں پر باغیانہ کاروائیاں۔ان لفظوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کے بلوچستان میں قتل و غارت کے سوا کچھ نہیں پایا جاتا۔ لیکن سوال ابھرتا ہے کہ کیا بلوچستان میں کوئی تعمیری سرگرمیاں یا کوئی مثبت کام نہیں ہوتا۔ اگر ہوتا ہے؟تو وہ بہت کم ہوتا ہے مگر ایسا نہیں۔حالیہ کرونا وائرس اور پھر لاک ڈاؤن نے تمام شعبوں کو سخت متاثر کیا ہے جس کی وجہ سے ہزاروں لوگ بے روزگار ہو گئے ہیں اور دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں۔

چائنہ کا سامان، کل اور آج

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

ٹھیک آج سے چھ ماہ پہلے جو ناکارہ چیزیں پاکستانی مارکیٹ میں سمجھی جاتی تھیں وہ چائنہ کی ہی چیزیں تھیں حتیٰ کہ پاکستانی دکاندار قسم اٹھا اٹھا کر تھکتے ہی نہیں تھے کہ یہ چائنہ کا مال نہیں کسی اور ملک کا مال ہے۔ مگر آج کل پھر چائنہ سے آئے ہوئے کرونا وائرس سیفٹی مال لاکھوں اربوں روپے کا سامان اعلیٰ کوالٹی سمجھا جا رہا ہے۔ یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ آخر یہ وقت کیوں آ گیا کل کی خراب چیزیں اچھی کیسے ہونے لگیں۔