|

وقتِ اشاعت :   January 24 – 2016

وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کا افتتاح بلوچستان کے علاقے ژوب سے کیا وفاق نے ایک مرتبہ پھر افتتاحی تقریب میں جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن محمود خان اچکزئی میر حاصل خان بزنجو سمیت دیگر اہم بلوچ پشتون لیڈر کو شامل کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشیش کی وفاق تمام طبقے کو ساتھ لیکر چل رہا ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری ہے اگر حکمرانوں نے نیک نیتی سے اس پر عمل کیا تو بلوچستان سمیت تمام صوبوں میں تجارت کی نئی راہیں کھلیں گی بیروزگاری میں کمی واقع ہو گی ہر نئی آنے والی حکومت کو بھیک کا کشکول بھی توڑنا پڑے گا بلوچستان سے پچھلے 67سالوں سے زیادتیاں ہوتی آرہی ہیں پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے میں بھی وفاق نے بلوچستان کو آٹے میں نمک کے برابر شامل کیا ہے کیونکہ کراچی تا لاہور موٹر وے منصوبے پر 645ارب روپے گوادر تا رتودیرو موٹر منصوبے پر 18ارب روپے اور بلوچستان میں وہ بھی 9ارب روپے سے موٹر وے بنانے کی بجائے نیشنل ہائی وے روڈ کا افتتاح کردیا گیا ہے کہاجا رہا ہے کہ اس اہم شاہراہ سے مزید چھ روٹ نکلیں گے بلوچستان کی پسماندگی بیروزگاری کے خاتمے کیلئے وفاق کو صنعتی زون بنانے ہو نگے تاکہ پاک چین اقتصادی راہداری کے ثمرات عام آدمی تک پہنچ سکیں کیونکہ وفاق بلوچستان کو عالمی سطح پر ماڈل کے طور پیش کرتا ہے لیکن عملی طور پر توجہ کم ہی دی جاتی ہے گواد ر پورٹ منصوبہ عالمی سطح پر نہایت اہمیت کا حامل منصوبہ ہے افسوس ہے طاقت ور وزرائے اعلیٰ بلوچستان نواب محمد اسلم رئیسانی کو یہ بھی اعزاز رہا ہے کہ ایک وقت میں پانچ پانچ کابینہ سے وزیر فارغ کیئے مگر گوادر کے حوالے سے وفاق سے مشاور ت نہیں کی اور سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکڑ عبدالمالک بلوچ جوغریب پروروزیراعلیٰ کے نام سے مشور تھے لیکن انہوں نے بھی گوادر کی تعمیر وترقی پر خاصل توجہ نہیں دی۔ کئی سالوں سے سنتے آ رہے ہیں گوادر پورٹ کی بڑی اہمیت ہے اوورحکمرانوں نے بلوچستان کی پسماندگی کے نام پر اربوں روپے لوٹے لیکن گوادر کو پینے کا پانی تک فراہم نہ کر سکے آج اگر گوادر فنکشنل ہوتا بلوچستان میں ترقی خوشحالی ہوتی تجارت کی نئی راہیں کھلتیں آج اگر پاک چین اقتصادی راہداری کا حشر گوادر کی ترقی جیسا کیا گیا تو تاریخ معاف نہیں کرے گی اگر اس منصوبے کو سبی سے پنجاب اور صحبت پور سے کشمور کے راستے سے پنجاب کو ملایا گیا تو بلوچستان کی عوام کو کئی گناہ فائدہ ہوگا پیڑول پمپ ہوٹلوں سمیت علاقے کی زمین کی اہمیت بھی بڑھے گی کیونکہ یہ سڑکیں کئی سالوں سے زیر تعمیر ہیں بد امنی کی وجہ سے ویران پڑی ہوئی ہیں اب بلوچستان کی حقیقی ترقی کیلئے ذاتی مفادات کو بالا طاق رکھنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ بلوچستان میں سب سے طاقتور وزراء اعلیٰ نواب اکبر خان بگٹی نواب محمد اسلم ریئسانی سردار اخترجان مینگل رہے ہیں جن کی بہادری کے قصے آج بھی یاد کیئے جاتے ہیں ان کے دور اقتدار میں بھی بلوچستان میں کوئی خاص میگا منصوبہ جیسے کہ وزیراعلی ٰ پنجاب میاں شہباز شریف میٹرو بس اورینج ٹرین منصوبے شروع کر رہے ہیں بلوچستان میں ٹرینوں کی حالت اور ریلوے اسٹیشنوں کی حالت دن بدن خراب ہوتی جا رہی ہے کیا بلوچستان کے عوام کا جدید سفری سہولیات سے مستفید ہونے کا حق نہیں بنتاہے جس وزیراعلی ٰ بلوچستان کو اپنی پسند کی کابینہ تشکیل دینے کا مکمل اختیار نہ ہو وہ کیا وفاق سے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے گوادر کی تعمیر ترقی اور ناراض بلوچ بھائیوں کو منانے کیلئے کیا پیش قدمی کر سکے گا اگر وفاق بلوچستان کے مسائل حل کرنے میں واقعی سنجیدہ ہے تو بلوچستان کے مسائل کا حل بلوچستان کے اندر ہی تلاش کیا جائے اگر ہمارے منتخب عوامی نمائندوں نے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے پر آواز بلند نہ کی تو اس کا حشر بھی گوادر پورٹ جیسا ہو گا جہاں اب تک عوام کو پینے کیلئے پانی دستیاب نہیں ہے ۔