|

وقتِ اشاعت :   January 26 – 2016

سپریم کورٹ آف پاکستان نے ملک میں تلور کے شکار پر عائد پابندی ہٹادی ہے اعلان کے بعد تلور کی شکار گاہوں پر تلور کی حفاظت کرنے کیلئے بڑے نامور شخصیات کی جانب سے لگے گئے کر وڑوں کی دوبارہ عرب شیخوں کی آمد سے ملنے کی امید پیدا ہو گئی ہے کیونکہ وہ سال بھر تلور پر شکار پر علاقائی سطح پر پابندی عائد کر رکھتے ہیں جن کی حفاظت کیلئے سینکڑوں کی تعدا د میں اسلحہ بردار چوکیدار دن کے اوقات کار میں ماہانہ آٹھ ہزار اور رات کے وقت ڈیوٹی دینے والوں کو دس ہزار روپوں پر رکھے جاتے ہیں ان کیلئے سرسوں کی فصل اگائی جاتی ہے آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے علاقے کے مکین پینے کے پانی کیلئے ترس رہے ہوتے ہیں ان کے جانور پیاس سے مر رہے ہوتے ہیں اپنے خاندانوں کی زندگیاں بچانے کیلئے گدھاگاڑیوں، بیل گاڑیوں پر میلوں دور سے پینے کیلئے گندے تالابوں سے پانی لاتے ہیں لیکن عرب امارات کے شیخوں کے شوق کو پورا کرنے کیلئے واٹر ٹینکوں کے ذریعے دور دور سے پانی لاکر فصل اگائی جاتی ہے اور تلوروں کے کھانے اور پیاس بجھائی جاتی ہے گزشتہ روز ہمارے سنیئر صحافی محمد ایوب بھٹو کو کسی اہم شخصیت کے ساتھ تلور کی شکار گاہ پر جانے کا اتفاق ہوا غریب علاقے کے مکینوں نے اس کی گاڑی کو گھیر لیا ،،ہاتھ باندھ کر عاجزانہ انداز میں کہاکہ صاحب،،عربی کب آئے گا ہم بھوک سے مر گئے ہیں،، اس کے برعکس پنجاب کے علاقے رحیم یار خان میں آنے والے عرب امارات کے تلور کے شکاریوں نے شہر کی قسمت بدل دی ہے ایئر پورٹ ،کشادہ سڑکیں اور درجنوں کی تعداد میں ریسٹ ہاؤس تعمیر کیئے گئے ہیں اور علاقائی سطح پر مقامی افراد کیلئے روزگار کے مواقع پیدا کیئے جارہے ہیں غریب عوام کیلئے علاج معالجہ کیلئے ہسپتال اور طلباء طالبات کیلئے تعلیمی وظیفوں کا بندوبست کیا جا رہا ہے اگر دیکھا جائے بلوچستان کے علاقوں جھل مگسی، کچھی، لہڑی اور نصیرآباد کے علاقوں میں صرف چند با اثرافراد کی قسمت کو بدلا جارہا ہے بہترین تلور کا شکار ہونے پر شیخ صاحبان خوش ہو کر قیمتی گاڑیاں اور آنے سے قبل ان کے بینک اکاؤنٹ میں کروڑوں روپے روانہ کردیتے ہیں اور جب یہ لوگ ان کے عرب امارات کے علاقوں میں جاتے ہیں اعلیٰ قسم کی رہائش کھانا پینے کا بندوبست کیا جاتاہے اور سوشل تعلقات پروان چڑھتے ہیں لیکن اس کے برعکس بلوچستان کے علاقوں کی ویرانگی پسماندگی جو ں کی توں ہے صحت کی سہولیات کیلئے اقدام تو در کنار غریب عوام جن کی زمینوں پر شیخ صاحبان زمین کا سینہ چیر کر شکار کھیلتے ہیں ان کے بچے اور جانور پینے کے پانی کیلئے پریشان ہیں جس انداز میں رحیم یار خان کی طرز پر یہاں ائیرپورٹ جدید ہسپتال جد ید ریسٹ ہاؤس بنانے کے بجائے عوام کی سہولیات کیلئے پینے کے صاف پانی کا بندوبست کیا جاتا تو ہم سمجھتے کے تلور کے شکار سے عام غریب آدمی کو فائدہ پہنچ رہا ہے اب ضرورت اس امر کی ہے بلوچستان حکومت تلور کے شکار کو قانونی شکل دیتے ہوئے عالمی سطح پر تلور کے شکار کو فروغ دینے کیلئے سیاحت کو مزید فروغ دیتے ہوئے چند عرب امارات کے چند شیخوں کے خاندان کو سہولیات دینے کے بجائے وہاں کی دیگر بزنس کمیونٹی کو بھی تلور کے شکار کی اجازت محکمہ جنگلات دے کر بلوچستان اٹھاریں ترمیم کے تحت صوبائی خود مختیاری سے اپنے وسائل بھی پیدا کرسکتی ہے بلوچستان میں تلور کے شکار سے عوام کیلئے بنیادی سہولیات کے حصول کیلئے پینے کے صاف پانی ،صحت ،تعلیمی سہولیات کے ساتھ ساتھ زراعت کے فروغ کیلئے چھوٹے ڈیم سڑکوں کی تعمیر اور غریب عوام کو پینے کیلئے صاف پانی کا بندوبست کیا جا سکتا ہے جو کہ کئی سالوں سے صرف چند بااثرافراد تلور کے شکار سے فوائد حاصل کر رہے ہیں کیونکہ تلور کا شکار اتنا منافع بخش کاروبار بن چکا ہے کہ اب اس میں نامور سیاست دان بیوروکریٹ بھی شامل ہو چکے ہیں غریب کسانوں چھوٹے زمینداروں سے کم معاوضہ پر زمین حاصل کی جاتی ہے حیرت کی بات یہ ہے وہ غریب کسان جو اپنے خاندانی کی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے ٹھیکے پر زمین دیتا ہے وہ مالک ہوتے ہی خود بھی اپنی زمین پر تلور کاشکار نہ کرنے پابند ہوتا ہے وزیراعلی ٰ بلوچستان نواب ثناء اﷲ خان زہری جہاں بلوچستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کیلئے عملی اقدامات کرنے کی ترجیحات کرنے کا اعلان کر چکے ہیں انہیں بلوچستان میں تلور کے شکار پر بھی توجہ دینے کیلئے بھی حکمت عملی طے کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بلوچستان میں چند شیخوں کے خاندان آنے کے بجائے عالمی سطح پر تلور کے شکار کا شوق رکھنے والے سیاحت والوں کو بھی متوجہ کیا جائے تاکہ تلور کے شکار کے فوائد عام آدمی تک پہنچ سکیں وہ سال بھر اپنی غربت بے بسی کو مٹانے کیلئے بلوچستان میں عربی کے آنے کاا نتظارنہ کریں ۔