|

وقتِ اشاعت :   January 27 – 2016

پاکستان کی سیاست پر نظر رکھنے والے ملی رہبر خان عبدالولی خان کی سیاسی مقام، مرتبہ اور عظمت سے بخوبی واقف ہیں۔خان عبدالولی خان خان کی سیاسی خدمات ،کردار اور شخصیت پرکئی کتابوں کے علاوہ پی ایچ ڈی اور ایم فل کی تھسیز بھی مکمل کئے جا چکے ہیں لیکن آپ کو جن عوامل کی بنیاد پر رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا، ان میں سے ایک عامل آپ کی لطیف مزاجی بھی ہے۔جس کا ہر کوئی معترف بھی ہے۔ سکھر سازش کیس کے سلسلے میں خان عبدالولی خان کو پنڈی سے سکھر جیل لایا جا رہا تھا۔ سکھر پہنچے تو متعلقہ پولیس آفیسر کو جیل کا پتہ نہیں تھا۔ وہ پولیس اسٹیشن کے پاس رکے تاکہ جیل کا پتہ معلوم کریں۔ شدید گرمی تھی ایک آدمی کپڑے اتارے ننگا کھڑا تھا۔ اس دوران اس پولیس آفیسر نے گرمی کی شکایت کی تو عبدالولی خان نے اس ننگے شخص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پولیس آفیسر کو بتایا کہ ’’اس کا علاج یہ ہے‘‘۔ وہ آفیسر اپنا سا منہ لے کر رہ گیا۔ عبدالولی خان 70ء میں علاج کے لیے لندن جا رہے تھے۔ اس وقت بھٹو، یحییٰ اور شیخ مجیب کی محاذآرائی جاری تھی۔ پشاور ایئر پورٹ پر ایک صحافی نے ولی خان کو بھٹو کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ وہ کہتا ہے کہ جو بھی قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے ڈھاکہ جائے گا ہم اس کی ٹانگیں توڑ دیں گے۔ ولی خان نے اس صحافی کو اپنی ٹانگیں دکھاتے ہوئے کہا کہ تم نے اتنی لمبی ٹانگیں کبھی دیکھی ہیں۔ یہ ٹانگیں انگریز اور اس کے باقی ماندہ آمر اور ڈکٹیٹر نہ توڑ سکے تو بھٹو کیا توڑ ے گا۔ ایک دفعہ اسمبلی میں بھٹو نے سوشلزم، حکومتی پالیسیوں اور اپنے آپ کی بڑی تعریف کی اور ولی خان کو حرف تنقید بنایا توولی خان نے کھڑے ہو کر اس کا تفصیلی جواب دیا اور آخر میں کہا کہ ’’آپ سب نے دیکھا ہو گا کہ جب کوئی جانور مر جاتا ہے تو اس کے گوشت پر کتے مزے کرتے ہیں۔ اور ایک ہوشیار اور تجربہ کار کتا یہ سمجھتا ہے کہ اوپر تو صرف کھال ہے اصل مال تو اندر ہے، تو وہ کوشش کرتا ہے اورا س وقت تک آرام سے نہیں بیٹھتا جب تک اس مردہ جانور میں اپنے لیے ایک راستہ نہ بنا لے تاکہ اندر کے مال تک اپنے آپ کو پہنچائے۔ آج جب میںآپ اور آپ کے پیپلز پارٹی کے ساتھیوں کو دیکھتا ہوں تو تم لوگ بھی اس ہوشیار کتے کی طرح مردہ جانور کے اندر گھس گئے ہواور ملک کی دولت، وسائل اور اچھے برے کو لوٹ رہے ہو۔اگر دیکھا جائے تو وہ کتا جو مردہ جانور میں سر اندر کر دیتا ہے اس کا پیٹ تو بھر جاتا ہے، چونکہ اس کا سر اندر ہوتا ہے تو اس کی آنکھیں، کان، دماغ اور زبان سب کچھ اندر ہوتا ہے۔ باہر تو صرف اس کا دم رہ جاتا ہے اور دم سے نہ تو وہ کچھ دیکھ سکتا ہے، نہ سن سکتا ہے اور نہ کچھ سوچ سکتا ہے اور نہ بھونک سکتا ہے۔ یہی آپ لوگوں کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ آپ کی عقل، نظر، سمجھ، کانوں اور قوت زبان کے تو ہم لوگ قائل ہیں لیکن تم لوگ اس مردہ جانور پر حملہ آور کتوں کی طرح ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ میں ہو۔ یہ آنکھیں صرف ذاتی فائدہ دیکھتی ہیں۔ یہ کان صرف اپنی خیر کی باتیں سنتے ہیں۔ یہ دماغ صرف انفرادی فائدے کا سوچتا ہے اور یہ زبان صرف اپنے مخالفین سے اپنے آپ کو بچانے کے کام میں مصروف ہے۔ تو جس طرح اس تجربہ کار کتے سے باہر کی دنیا اور باہر کی دنیا کا سب کچھ اور ماحول رہ جاتا ہے۔ صرف دم سے نہ تو وہ سن سکتا ہے، نہ دیکھ سکتا ہے، نہ سوچ سکتا ہے اور نہ ہی عمل کر سکتا ہے۔یہی مثال تم لوگوں کی بھی ہے۔ قوم کا تو اس وقت پوچھا جائے گا جب تم لوگوں کو ذرا اس مردہ جانور سے صبر آ جائے گا۔ خان عبدالولی خان جب حیدرآباد جیل میں تھے تو ایک دن کمرے کی مرمت کے لیے آدمی آئے۔ انہوں نے آپ سے پوچھا کہ خان صاحب آپ کی اس چکی کو کون سا رنگ دیا جائے، جو آپ کو پسند ہو، تو ولی خان نے کہا کہ یہ تو بھٹو سے پوچھا جائے کہ اسے کونسا رنگ دیا جائے کیونکہ میں تو یہاں چند دنوں کا مہمان ہوں البتہ بھٹو صاحب یہاں مستقل طور پر رہیں گے اور جب بھٹو گرفتار ہوئے اور اسی کمرے میں قید ہو گئے تو ایک دن وہی ملازم جو خود بھی سندھی تھے، ولی خان کے پاس آئے اور کہا کہ خان صاحب آپ کو پہلے سے کیسے معلوم تھا کہ بھٹو اسی کمرے میں آئیں گے جبکہ اس وقت بھٹو وزیراعظم تھے۔ ولی خان نے ازراہ مذاق کہا سندھی لوگ مرے ہوئے ولیوں اور پیروں پر یقین رکھتے ہیں تو زندہ ’’ولی‘‘ پر کیوں یقین نہیں کرتے۔ ریفرنڈم کے دنوں میں ولی خان کا ایک مسلم لیگی آشنا آئے اور کہنے لگے’’مانتے ہو یا نہیں‘‘ کیسے باندھ لیا۔ اب تم لوگ ادھر پھنس گئے ہو اور ہندوستان ادھر رہ گیا اور درمیان میں پنجاب گھس گیا اور اس وجہ سے ریفرنڈم میں یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ہندوستان کے ساتھ الحاق کریں گے۔ ولی خان ہنسے اور کہا’’ مسلم لیگی ہو نا! ملکوں کو ٹکڑے ٹکڑے اور حصے بخرے کرنا تم اور تمھارے باپ داد انگریز کا کام ہے۔ ہم بنایا کرتے ہیں توڑتے نہیں۔ اگر آپ کی طرح سیاست ہم کرتے تو یہ بات کیوں بھولے ہو کہ تمھارے اورمشرقی پاکستان کے بیچ کتنا فاصلہ ہے؟ تم اپنی سرحد سے ڈیڑھ ہزار میل دور ملک کو شریک بنا سکتے ہو تو میرے لیے تو صرف تین سو میل بھی نہیں ہیں۔اور یہ کہ تمھارے مغربی اور مشرقی پاکستان کے بیچ تمھارے کہنے کے مطابق تو ایک کافر اور دشمن ملک موجود ہے میرے پڑوس میں تو مسلمان بھائی پنجابی ہو گا۔ 1970کے انتخابات کے نتیجے میں نیپ نے بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں حکومتیں بنائیں جس کے نتیجے میں کافی مسلم لیگی ان کے ساتھ شامل ہوئے۔ تو ان میں شامل ایک مسلم لیگی خاتون ولی خان سے کہنے لگیں۔ ’’میں نے ریفرنڈم میں اپنے ہاتھوں سے اکاون ووٹ ڈالے تھے‘‘۔ ولی خان نے جواب دیا بی بی ! ایک ووٹ تواپنے اور اپنے شوہر کے نام پر ڈالا ہو گا؟ کیوں یہ باقی پچاس ووٹ ڈالنے کے بعد تم نے نکاح کی تجدید کی ضرورت محسوس نہیں کی؟ کیونکہ اپنی زبان سے پولنگ عملے کے آفیسران کے سامنے بیان دیا ہے کہ میں فلاں کی بیوی ہوں۔ تو جب یہ پچاس شوہر تم اپنے لیے ڈھونڈ رہی تھی تو تمھارے اپنے بیچارے شوہر کا وہ شرعی حیثیت اسی طرح موجود تھا؟ اور خطرہ تو ایک اور بھی تھا اگر ان پچاس افراد میں ایک آیا ہوتا اور تمھارے کندھے پر ہاتھ رکھ کر یہ کہتا کہ یہ میری بیوی ہے، اپنی زبان سے اقرار کر رہی ہے، تو پھر کیا کرتی؟ گول میز کانفرنس میں شیخ مجیب نے 22صفحات کا بیان پڑھ کر سنایا۔ اس کے بعد ولی خان کی باری آئی تو ولی خان نے کہا ’’جناب صدر! یہ بیچارہ 54فیصد والا چیخ رہا ہے کہ میرے حقوق کا تحفظ کیا جائے ، یہ 46فیصد سے تحفظ چاہ رہا ہے‘‘ وقفے کے دوران شیخ مجیب بھاگ کر ولی خان کے پاس آئے اور کہا کہ ولی خان آپ نے وہ بات ایک جملے میں کہہ دی جو میں 22 صفحات میں واضح نہ کر سکا۔وراثت کے حوالے سے ولی خان اپنی ایک کتاب میں لکھتے ہیں کہ جب ہم مسلم لیگی کارکنوں کے ساتھ مذاقاً بحث کرتے تو وہ ہم ان کو ہندو کے بچے کے طعنے کے جواب میں کہتے کہ ہندوؤں اور سکھوں کی رہ جانے والی بنگلوں ، گھروں، دکانوں، جائیداد اور تجارت پر مسلم لیگیوں نے قبضہ کر لیا اور اس کو اپنا حق سمجھا ، تو دنیا کا یہ قانون ہے کہ باپ کا جائیداد بیٹوں کو وراثت میں ملتا ہے۔ تو مسلم لیگی بتائیں کہ وہ ہندوؤں کے بچے ہیں یا خدائی خدمت گارَ اور جب انگریز نے یہ اعلان کیا کہ میری رہ جانے والی جائیداد اور تمام معاہدات کا وارث مسلم لیگ کی حکومت ہے تو اس وجہ سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ قانون کی روح سے چونکہ باپ کے جائیداد کی وراثت کا دعویٰ صرف ایک بیٹا ہی کر سکتا ہے، تو اس طرح مسلم لیگ بھی یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار ہے اور بابا فرنگی کے رہ جانے والی جائیداد کی وراثت کا دعویٰ کرتا ہے۔ ایک مرتبہ صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ قیوم خان نے الزام لگایا کہ ولی خان کے لیے کابل سے ایک کروڑ روپے بھیجے گئے ہیں۔ اخبارات میں یہ بیان پڑھ کر ولی خان محظوظ ہوئے۔ پشاور کچہری کے بار روم چلے گئے اور وہاں موجود وکلاء صاحبان سے کہا کہ کابل سے بھیجی گئی رقم راستے میں کسی نے غائب کر دی ہے، از راہ کرم یہ رقم دلانے کے لیے مقدمہ دائر کریں اور وکلاء صاحبان سے وعدہ کیاکہ یہ رقم دلا دی گئی تو آدھی رقم مقدمہ لڑنے والے وکلاء صاحبان کی خدمت میں پیش کر دی جائے گی۔ مقدمہ دائر ہو گیا جس میں قیوم خان کو فریق بنایا گیا۔ مقدمے کی کاروائی میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ کابل سے بھیجی گئی رقم کی ترسیل اور اس کی وصولی کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا جا سکا اور الزام لگانے والوں کو منہ کی کھانی پڑی۔ 1965کے صدارتی انتخابات میں جنرل ایوب کے مقابلے میں صدارتی امیدوار کے لیے متحدہ اپوزیشن کو متفقہ امیدوار کا مسئلہ پیش آیا۔ متوقع امیدواروں میں ایک نام فاطمہ جناح کا بھی تھا لیکن وہ اس کے لیے تیار نہیں تھیں۔ اس سلسلے میں نیشنل عوامی پارٹی کے مرکزی کونسل کا اجلاس مولانا بھاشانی کی زیر صدارت شاہی باغ میں ہو رہاتھا۔ اس دوران ولی خان نے مذاقاً کہا کہ ہمارے پڑوس کے گاؤں میں گاؤں والے اپنے پچھلے ممبر سے تنگ آ چکے تھے۔ اس بار انہوں نے اس پپو نامی شخص کے مقابلے میں ایک عورت کو کھڑا کر دیا اور کہا کہ اگر پپو جیتے تو ایک عورت سے جیت جائے گا اور کوئی نام نہیں کما سکے گا اور اگر ہار گیا تو اس کے لیے اس سے بڑی شرم کی بات کوئی نہیں ہو گی۔ ولی خان نے کہا کہ اگر کوئی میری بات مانتا ہے تو ہمیں بھی اس پپو (جنرل ایوب) کے مقابلے میں اس عورت( فاطمہ جناح) کو کھڑا کر دینا چائیے۔ حیدر آباد سازش کیس کے دوران ولی خان کو دانتوں کے علاج کے لیے راولپنڈی لے جایا گیاجہاں ایک لیڈی ڈاکٹر نے پہلے معائنہ کے دوران ہی ولی خان کا ایک دانت نکال دیا اور دو ہفتے بعد دوبارہ آنے کو کہا۔ دو ہفتے بعد اس لیڈی ڈاکٹر نے ولی خان کا دوسرا دانت بھی نکال دیا۔ حالانکہ دانت صرف متاثر تھا۔ اس پر ولی خان نے اس ڈاکٹر سے کہا کہ ’’ڈاکٹروں کا کام دانتوں کو بچانا ہے نکالنا نہیں۔ اگر بات نکالنے کی ہے تو میں ابھی تمھارے 32دانت نکال دیتا ہوں‘‘۔ پھر پیار سے کہا کہ اگر تمھارا خیال ہے کہ میں بھٹو کا مخالف ہوں تو تم میرے دانت نکال لو گی تاکہ میں اس کو کاٹ نہ سکوں۔ دیکھو! اگر میرے دانت نہیں ہوں گے بھی تو میں تمھارے بھٹو کا علاج کر سکتا ہوں۔ کشمیر پر ایک مرتبہ بحث ہو رہی تھی۔ قاضی حسین احمد صاحب اٹھے اور کہا کہ جب تک ہم لال قلعہ پر اسلام کا جھنڈا نہیں لہرائیں گے تو بات نہیں بنے گی۔ اور پھر کہنے لگے کہ دیکھیں اسلام کی قوت ایمانی نے کس طرح برلن کی دیوار توڑ کر کھ دی۔ ولی خان اٹھے اور قاضی صاحب سے پوچھا۔ قاضی سنا تھا، آپ سکول میں استاد تھے۔ اگر آپ کی علمی استعداد یہ ہے تو پھر آپ بچوں کو کیاسکھاتے رہے ہیں۔ یہ برلن ہے کدھر؟ قاضی صاحب نے جواب دیا وہی قوتیں جنہوں نے یہاں دیوار کھینچی تھی جسے ڈیورنڈ لائن کہتے ہیں۔ اسی طرح انہی قوتوں نے برلن میں لائن کھینچی اور اسے زیادہ مضبوط بنانے کے لیے وہاں دیوار بنا دی۔ ولی خان نے بتایا کہ میں گیا ہوں اس دیوار کے آس پاس وہاں جا کر میں نے دیکھا کہ اس دیوار کے دونوں جانب جرمن آباد ہیں۔ وہ بھی کافر یہ بھی کافر، اسلام آپ نے کہاں سے ان میں گھسیڑ دیا؟ وفات سے چند دن پہلے سنگین ولی نے مہمانوں کی موجودگی میں ولی خان سے کہا کہ بابا آپ ہمارے لیے دعا کریں کہ ہم قوم کی خدمت کر سکیں۔ جواب میں ولی خان نے ہنس کر کہا دعائیں دینا تو ملاؤں کا کام ہے ، کیوں میں آپ کو ملا دکھائی دیتا ہوں؟ ولی خان نے ستر کے عشرے میں ایک مرتبہ گوجرانوالہ کے مرکزی مسجد میں جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایک دور دراز کا دیہاتی شہر آیا تو کوئی موذن مسجد کی مینارے پر چڑھ کر اذان دے رہا تھا۔ جس زمانے میں لوڈ سپیکر نہیں ہوتے تھے۔موذن اسی طرح بلند مینار پر چڑھ کر اذان دیتے تھے تاکہ آواز دور تک جا سکے۔ اس دیہاتی نے موذن کو بلند مینار پر اذان دیتے دیکھا تو سمجھا کہ اس کو نیچے اترنے کے لیے راستہ نہیں مل رہا اور مدد کے لیے چیخ و پکار رہا ہے۔ وہ آگے بڑھا اور مینار کے چاروں طرف گھوم کر اس نے دیکھا کہ مدد کے لیے اس کے پاس پہنچنے کا کوئی راستہ ہے؟ جب کسی طرف سے کوئی راستہ دکھائی نہ دیا تو نیچے سے بلند آواز کے ساتھ موذن کو پکارا کہ ’’بھائی مجھے تو کوئی راستہ نظر نہیں آر ہا، اس لیے جس نے تجھے اوپر چڑھایا ہے وہی تجھے نیچے بھی اتارے گا‘‘ اس پر ولی خان نے کہا کہ بھٹو حکومت کو پنجاب اوپر لایا ہے، ا س لیے پنجاب ہی کو اسے اتارنے کے لیے بڑا کردار ادا کرنا ہو گا۔ اسی جلسے سے ولی خان نے ایک اور لطیف بات بھی کہی کہ ایک شخص چوڑیوں کی ٹوکری اٹھائے گلی گلی چوڑیاں بیچ رہا تھا، ایک جگہ وہ چوڑیوں کی ٹوکری زمین پر رکھے کھڑا تھا کہ پولیس کا سپاہی آیا اور ٹوکری کو پاؤں کی ٹھوکر مار کر پوچھا کہ اس میں کیا ہے؟ اس نے جواب دیا جناب ایک ٹھوکر اور مار دیں تو اس میں کچھ بھی نہیں ہے۔ اس پر ولی خان نے کہا کہ پاکستان ایک بار ٹوٹ چکا ہے کہیں ہماری حرکتوں کی وجہ سے باقی ماندہ پاکستان بھی نہ ٹوٹ جائے۔ 1978میں ولی خان نے حیدر آباد جیل سے رہا ہونے کے بعد پشاور صدر میں ایک جلسے میں بلوچستان میں نیپ حکومت توڑنے اور پیپلز پارٹی کی اقلیت کو اکثریت میں بدلنے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان اسمبلی میں 43میں سے28ارکان ہمارے اور باقی15میں سے صرف 4اراکین بھٹو کے ساتھ تھے۔ مگر انہوں نے کہا کہ پی پی پی کی اکثریت ہے، حکومت پی پی پی بنائے گی۔ہم نے کہا کیسی اکثریت ہے؟ ان کے پاس کوئی دلیل نہ تھی۔ یہ اس لڑکی کا سا معاملہ تھا، جس کے ہاں شادی کے تین ماہ بعد بیٹا ہوا۔ سسرال والوں نے اس کا برا منایا۔ لڑکی نے کہا، اس میں کیا برائی ہے، سسرالیوں نے کہا کہ بچہ 9مہینے بعد پیدا ہوتا ہے، تین مہینوں میں پیدا نہیں ہوتا۔ لڑکی نے کہا اس کے ساتھ میری شادی کے کتنے مہینے ہوئے؟ لوگوں نے کہا ’’تین‘‘ اس نے پوچھا میرے ساتھ اس کی شادی کو کتنے مہینے ہوئے لوگوں نے کہا ’’تین‘‘ لڑکی نے سوال پوچھا، بچہ کتنے مہینے بعد پیدا ہوا؟ لوگوں نے کہا تین ماہ بعد۔ اس پر لڑکی نے کہا 9مہینے ہوئے یا نہیں ہوئے؟ چنانچہ سسرال والوں کو ماننا پڑا کہ 9مہینے ہوئے۔ ایک دفعہ خان عبداولی خان سوات کے گاوں شاہ ڈیرئی محمد رسول خان کی فاتحہ خوانی کے لیے تشریف لے گئے۔ میزبان خلوص محبت سے دھڑا دھڑ تکیے لاتے رہے اور خان بابا کی چارپائی پر رکھتے رہے، ولی خان اٹھ کر کھڑے ہو گئے۔ میزبان نے بیٹھنے کی استدعا کی ، ولی خان بابا کہنے لگے ’’چارپائی تو تکیوں سے بھر گئی آپ نے میرے بیٹھنے کی گنجائش کہاں چھوڑی۔ اس پر تمام لوگ بے تحاشا ہنس پڑے۔ ضیاء الحق کے دور حکومت میں کراچی میں باچاخان چوک پر جلسہ تھا۔ ولی خان کی تقریر کے دورانF.16طیاروں کے بار بار گزرنے سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ ولی خان نے طیاروں کے شور کے خلاف لوگوں کا ردعمل دیکھا تو قہقہہ لگا کر ہنس پڑے اور کہا ۔ دیکھو جی نہ ہندوستان سے لڑنے کی ہمت نہ افغانستان سے لڑنے کی ہمت، گولی چلے تو اپنی قوم پر ۔ کبھی سہراب گھوٹھ پر چڑھائی تو کبھی بلوچستان، دیر پر بمباری۔ اگر کہیں افغانستان، ہندوستان کی طرف سے فضائی خلاف ورزی ہوتی ہے تو صرف بیان جاری ہوتا ہے، کہ ناظم الامور کو بلاؤ، بس بات ختم، ارے بابا جاؤ، تمھارا کام ہے سرحدات کا تحفظ کرنا اور تم یہاں میرے جلسے کے اوپر اڑے اڑے پھر رہے ہو۔ یہ سن کر لوگوں نے ولی خان زندہ باد کے نعرے شروع کر دئیے۔ کراچی فسادات کے دوران جب ولی خان پر کراچی میں داخلے پر پابندی تھی۔ لیکن حاکم علی زرداری نے بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کی شادی میں شرکت کے لیے حکومت سے ولی خان کی شادی میں شرکت کے لیے تین دن کی اجازت لی تھی۔ اس دوران پارٹی کے ساتھیوں نے پروگرام بنایا تھا کہ ولی خان فاضل راہو کی قبر پر دعا کے لیے حاضری دیں گے جو چند ہفتے قبل ہی شہید کر دئیے گئے تھے، لیکن حکومت نے انہیں اس کی اجازت نہیں دی اس موقع پر ولی خان نے کہا کہ پشاور سے آنے کے موقع پرمیں نے ساتھیوں سے کہا تھا کہ آپ صرف ایک طرف کا ٹکٹ لے آئیں،دوسری طرف کا بندوبست حکومت کرے گی۔ اور ہوا بھی ایساہی، حکومت نے رہنماؤں کو فاضل راہو کی قبر پر حاضری کی اجازت نہیں دی اور تیسرے دن واپس کر دیئے گئے۔ بھٹو کے دور حکومت میں گراسی گراؤنڈ سوات میں جلسہ تھا۔ ولی خان ایک عظیم الشان جلوس کی شکل میں آ رہے تھے۔ سالاران سپیکر پر مہمانوں کو راستہ دینے کا اعلان کرتے رہے۔جب ولی خان تقریر کے لیے اٹھے تو کہا کہ ’’آپ میں سے کوئی مہمان ہے؟ میرا تو یہاں جرد میں ایک کمرہ ہے۔ میں بھی سواتی ہوں‘‘ اس پر لوگوں نے ژوندے ولی، ژوندے دی وی کے نعرے لگائے۔بھٹو صاحب اکثر اپنے جلسوں میں زیادہ ذکر ولی خان کا کرتے تھے۔ خاص کر یہ بات کہ نہ تو میں ولی خان سے ڈرتا ہوں اور نہ ولی خان کے ڈاکٹر سے ڈرتا ہوں، تو ولی خان کہتے کہ تم تو اپنے جلسوں میں گھنٹوں گھنٹوں صرف مجھ پر تقریر کرتے ہو اور پھر تم کیسے کہہ سکتے ہو کہ میں ولی خان سے نہیں ڈرتا۔ تم تو خدا کو بھولے ہوئے ہو، رسول کو بھولے ہوئے ہو، صرف ولی خان تمہیں یاد ہے تم کیسے نہیں ڈرتے؟ اگر دیکھا جائے تو بھٹو کی سیاست پر جذباتی اور انتقامی عنصر غالب تھا ۔ بطور پروپیگنڈہ ولی خان کے خلاف وہ ہر بات کرتے کہ ہندوستان ولی خان کے ساتھ ہے، افغانستان ولی خان کے ساتھ ہے، روسی جرنیل نے ولی خان سے کہا کہ یہ فوج بھی تمھاری، یہ ٹینک اور ہوائی جہاز بھی تمھارے، آپ صرف ہمیں اشارہ کردیں۔ اگلے دن ولی خان نے اسمبلی میں بھٹو سے پوچھا، ’’بھٹو صاحب! میں آپ سے ایک سوال پوچھتا ہوں کہ ہندوستان میرے ساتھ ہے، روس میرے ساتھ ہے اور افغانستان بھی میرے ساتھ ہے، تم پھر کونسے شلجم بیچ رہے ہو۔ تمہیں لوگوں نے مسائل حل کرنے کے لیے ووٹ دیا ہے اور تم نے اپنے آپ کو جوکر بنایا ہوا ہے۔ سارا دن لوگوں کے پیچھے جھوٹ بولتے ہو۔ ملک فدا الرحمن اپنی ایک کالم میں ولی خان سے ملاقاتوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ’’ ایک دفعہ میری ادبی تنظیم کا ایک فنکشن تھا جس کی صدارت ایک وفاقی وزیر نے کرنی تھی اور ولی خان مہمان خاص تھے۔ دعوتی کارڈ پر چار بجے کا وقت دیا گیا تھااور ولی خان ٹھیک چار بجے پہنچ گئے اور سٹیج کے قریب جا کر کھڑے ہو گئے اور گپ شپ لگاتے رہے لیکن پاکستان میں چونکہ تقریبات لکھے ہوئے وقت سے ایک ڈیڑھ گھنٹہ بعد میں شروع ہوتی ہیں اس لیے ہمارے وزیر صاحب چار بجے کے بجائے ساڑھے پانچ بجے اندر آئے تو تمام سامعین نے تالیاں بجا کر اٹھ کر اس کا استقبال کیا۔ اس دن ولی خان صاحب نے اپنی تقریر میں کہا کہ پاکستانیوں کی یہ بڑی خرابی ہے کہ جو اچھا کام کرتا ہے اسے سزا دیتے ہیں اور جو جرم کرتا ہے اس کو شاباش دیتے ہیں۔ میں نے ٹھیک کام کیا کہ کہ مقررہ وقت چار بجے ہال کے اندر داخل ہو گیا۔ میرے ٹھیک کام کرنے کے جرم میں70کے بزرگ کو ڈیڑھ گھنٹہ کھڑا رہنے کی سزا دی گئی اور وزیر صاحب چار بجے کا وقت دے کر ساڑھے پانچ بجے داخل ہوئے تو آپ لوگوں نے گلہ شکوہ کرنے کی بجائے ان کا اٹھ کر استقبال کیا اور آئندہ مزید دیر سے آنے کے لیے انکا حوصلہ بڑھایا۔ اگر آپ اصول پر کام کرتے تو میں چار بجے آ گیا تھا، آپ تقریب شروع کر دیتے اور وزیر صاحب کے دیر سے آنے پر انہیں سامعین سے معافی مانگنے کے لیے کہتے تو وہ آئندہ دیر سے آنے کی اور وعدہ خلافی کی جرأت نہ کرتے۔ جب نیپ پر پابندی لگی اور ولی خان اور اس کے ساتھیوں کے خلاف حیدر آباد کا خصوصی ٹربیونل بن گیا، تو ایک دن جج صاحب کیس کی سماعت کے لیے حیدرآباد جیل گئے تو ولی خان نے کہا کہ میں ملزم ہوں اس لیے یہاں بیٹھا ہوں۔ آخر آپ لوگوں نے کیا گناہ کیا ہے جو جیل آئے ہو۔ ولی خان کی بعض پیشن گوئیوں اور آراء کے صحیح ثابت ہوجانے پر پنجاب کے سیاستدانوں نے ان سے پوچھا کہ خان صاحب اب آئندہ حالات کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے تو ان کا جواب تھا کہ ’’میں ولی خان ہوں، ولی اللہ نہیں‘‘۔ ڈاکٹر ظہور احمد اعوان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ جب پی این اے کے بعض رہنماء ضیاء الحق کی حکومت میں شامل ہو گئے تو انہوں نے ولی خان سے پوچھا کہ ’’آپ اقتدار میں شریک کیوں نہیں ہوئے؟‘‘ اس پر آپ نے مسکرا کر کہا توبہ کرو توبہ۔ پاکستانی قوم پر حکمرانی کرنا آسان نہیں۔یہ دولہا بنا کر گھوڑے پر سوار کرتی ہے، پھر جانور بنا کر اتارتی اور گلیوں میں گھسیٹتی ہے۔ ایک دفعہ ایک اخبار نے خبر شائع کی کہ ولی خان لندن جاتے ہوئے پر اسرار طور پر ماسکو پہنچ گیا ہے۔ اس اخبار کے ایک نمائندے نے لندن میں ولی خان کے ایک دوست سے کہا کہ مجھے ولی خان سے ملنا ہے اس نے فون پر ولی خان سے رابطہ قائم کیا تو ولی خان نے کہا کہ ان صاحب کی مجھ سے بات کرائیے۔ اس نے جب ریسیور تھام کر ولی خان کی آواز سنی تو پوچھنے لگے ’’کون‘‘ ولی خان نے جواب دیا۔ میں ماسکو سے ولی خان بول رہا ہوں۔ وہ بیچارہ پریشان ہو کر کہنے لگا۔ ’’حضور ! میں نے تو آپ کو لندن میں فون کیا ہے‘‘۔ ولی خان نے کہا کہ تمھارے اخبار کے مطابق تو میں ماسکو میں ہوں۔ تم نے لندن کے فون پر مجھ سے رابطہ کیسے قائم کیا؟