|

وقتِ اشاعت :   February 12 – 2016

شام میں حکومت کے ساتھ سیاسی اختلافات نے خانہ جنگی کا رخ اختیار کرلیا۔ صرف ایک شخص جس کی وجہ سے پورا شام تباہ و برباد ہوگیا۔ ڈھائی لاکھ لوگ ہلاک ہوئے 50لاکھ سے زائد لوگ بے وطن اور مہاجر بن گئے۔ لاکھوں لوگ یورپ کا رخ کررہے ہیں جہاں پر وہ سیاسی پناہ چاہتے ہیں اور امن کی زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ اگر صرف شخصِ واحد ملک اور قوم کے لئے قربانی دیتا تو پورا شام تباہ و برباد نہیں ہوتا اس سے قبل صدام حسین کی وجہ سے عراق تباہ ہوچکا تھا۔ قذافی کی وجہ سے لیبیا تباہ ہوچکا ہے اب صدر اسد کی وجہ سے شام تباہ ہوچکا ہے۔ شاید اس کے بعد ایران کی باری ہے جہاں پر بھی عدم برداشت کے شواہد سامنے آرہے ہیں۔ بلکہ بعض عرب ممالک یہ الزام لگارہے ہیں کہ ایران یمن پر قبضہ کرچکا ہے۔ اس کی افواج شام، عراق اور لبنان میں موجود ہیں۔ شام میں تو کئی ایرانی فوجی جنریل جنگ میں ہلاک ہوچکے ہیں۔ شام میں ابھی خانہ جنگی جاری ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ روس اور ایران کی فوجی اور فضائی حمایت کے بعد اسد حکومت کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے۔ حزب اختلاف نے جنیوا میں امن مذاکرات میں دوبارہ شمولیت سے انکار کردیا ہے۔ امریکہ سعودی عرب اور ترکی سے براہ راست فوجی مداخلت کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اس وقت تک امن مذاکرات میں شریک نہیں ہوں گے جب تک امریکہ، سعودی عرب، ترکی اور اس کے اتحادی مداخلت نہیں کرتے ۔ادھر سعودی عرب، بحرین اور عرب امارات نے یہ اعلان کیا ہے کہ وہ شام میں اپنے مسلح دستے بھیجنے کو تیار ہیں۔ دوسری جانب سعودی عرب کی سربراہی میں یہ تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں کہ عرب ممالک کی ایک مشترکہ فوج اور کمان قائم کی جائے جس میں چار لاکھ کے لگ بھگ فوجی ہوں گے اور وہ جدید ترین اسلحہ سے لیس ہوں گے۔ ظاہر ہے کہ پاکستان اس فوج میں اپنے دستے نہیں بھیجے گا بلکہ سفارتی، اخلاقی، سیاسی حمایت جاری رکھے گا۔ اس فوج کا ظاہر مقصد یہ نظر آتا ہے کہ ایران کی بڑھتی ہوئی فوجی قوت کا مقابلہ کیا جائے۔ یمن کے بعد وہ گلف کے ممالک پر قبضہ نہ کرسکے۔ بلکہ خود سعودی عرب کے لیے ایک فوجی خطرہ نہ رہے۔ ظاہر ہے کہ عرب فوج کو امریکہ اور نیٹو ممالک کی امداد اور حمایت حاصل ہوگی اور ان کی مکمل طور پر مدد کی جائے گی اگر اس کا مقابلہ ایران سے ہوگا۔ بھارت اور افغانستان کے کشیدہ تعلقات کی وجہ سے پاکستان اس قابل نہیں ہوگا کہ وہ اپنے فوجی دستے عرب فوج یا ایران مخالف فوجی اتحاد کے لئے روانہ کرے۔ البتہ اس میں ترکی اور مصر جیسے دو بڑے اسلامی ممالک کی حمایت ضرور حاصل ہوگی تاہم پاکستان عرب اتحاد کا حمایتی ہونے کے باوجود بھی الگ تھلگ رہے گا۔ ہوسکتا ہے کہ عرب ممالک آئندہ حکمت عملی میں پاکستان کو نظر انداز کریں اور خطے کی مجموعی منصوبہ بندی میں اس کو شامل نہ کریں۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ پاکستان ایران کو ناراض کرنا نہیں چاہتا کیونکہ ایران پڑوسی ملک ہے اور اس کی 900کلومیٹر طویل سرحد ایرانی اور پاکستانی بلوچستان کو ملاتی ہے ایسی صورت میں پاکستان ایک اور سرحد کو غیر محفوظ بنانے کا حامی نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ افغانستان اور بھارت کے ساتھ سرحدیں پہلے سے کشیدہ ہیں اور اس خطے میں کبھی کوئی بھی واقعہ رونما ہوسکتا ہے جو بڑی تبدیلی کی وجہ بن سکتاہے۔ اس لئے پاکستان کو محتاط رہنا چاہئے اور ایران کے خلاف ہر طرح کی اشتعال انگیزی سے پرہیز کرنا چاہئے تاکہ دونوں ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات نہ صرف خوشگوار ہوں بلکہ قریبی اور برادرانہ ہوں۔ اس طرح سے عرب اپنی جنگ ایران کے ساتھ خود لڑیں اور وہ پاکستان کو اس میں ملوث نہ کریں تو خطے کے امن اور استحکام کے لیے بہتر ہوگا۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششیں جاری رکھنی چاہئیں اور اس بات کی یقین دہانی کرانی چاہئے کہ اس خطے میں جنگ نہ ہو اور معاملات صرف بات چیت کے ذریعے حل ہوں۔ ایسی پالیسی کی لوگ حمایت کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ عوام الناس حکومت کا ساتھ دیں تاکہ بیرونی ممالک کا دباؤ حکومت پر کم سے کم آئے اور حکومت اس کا مقابلہ کرے۔