|

وقتِ اشاعت :   April 7 – 2016

برق رفتار ، جدید سروس اور تمام تر سہولیات کے باوجود آخر کتابیں کیوں اہم ہیں۔ آج بھی پڑھا لکھا طبقہ کتابوں کے بغیر اپنی زندگی کو ادھورا ہی تصور کرتا ہے۔ کتابوں سے استفادہ کرنا اور ان کو گھنٹوں گھنٹوں پڑھنا یقیناًکتاب سے قاری کی محبت کابیّن ثبوت ہے۔ کتاب انسان کو جینا سکھاتی ہے، صحیح راستہ دکھاتی ہے۔ زندگی کے رنگوں میں رنگ لیتی ہے۔ زندگی کی الجھنوں کو سلجھانے کا ذریعہ بھی کتابوں کے اندر پنہاں ہے۔ خیال یہ کیاجا رہا تھا کہ اکیسویں صدی کتابی دور کو بہا لے جائیگی لیکن ایسا نہیں ہو سکا آج بھی کتابیں چھاپی جارہی ہیں گاہک بھی ہیں اور ناشر بھی۔ یقیناًکتاب نے اپنی معیار اور حقیقت کوکبھی بھی کھونے نہیں دیا۔ ادبی میلے ہوتے ہیں کتابوں سے بھرپور اسٹال لگتے ہیں خریدار آجاتے ہیں اور یوں کتابیں بک جاتی ہیں۔ اس سال گوادر نے اپنی پرانی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے کتابوں سے محبت کا ثبوت دیا اور کتابوں کا میلہ سجا دیا۔ بڑے بڑے ادارے اس اہم کتابی میلے کا حصہ بنے۔ بلوچی اکیڈمی ان دنوں مختلف اداروں اور لائبریریوں کو کتابوں کی مفت تقسیم کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ یہ کتابیں بلوچستان کے کونے کونے تک پہنچانے کی ذمہ داری بھی اکیڈمی نے لے لی ہے۔ اس ضمن میں اکیڈمی کی جانب سے جاری کردہ اعلامئے میں ان تمام رجسٹرڈ لائبریریوں کو مراسلے جاری کے جا چکے ہیں کہ وہ اپنے کوائف اکیڈمی کو ارسال کریں تاکہ ان کو کتابوں کی فراہمی عمل میں لائی جا سکے۔ بلوچی اکیڈمی کے پریس اینڈ پبلیکیشن سیکرٹری ہیبتان دشتی کا کہنا ہے ’’ ہم نے اس سال 140لائبریریوں کی ٹارگٹ رکھی ہے۔ جن میں سے 80سے زائد کی درخواستیں موصول ہو چکی ہیں۔ جبکہ 40درخواستوں پر کاروائی عمل میں لاکرانھیں کتابیں بھیجی جارہی ہیں جن میں سائنس، فلسفہ، ادب، سماج، ثقافت، نفسیات اور دیگر موضوعات پر کتابوں کے علاوہبلوچی اکیڈمی کی سب سے معیاری اور قیمتی کتاب ’’ کلیات نصیر‘‘ بھی شامل ہے۔ ان اداروں کو پہنچائی جارہی ہیں‘‘۔بلوچی اکیڈمی نے کیا سوچ کرکتابوں کی مفت فراہمی شروع کی ہے اور اسکے کیا مثبت اثرات پڑیں گے اس سوال کے جواب میں انکا کہنا تھا۔ ’’ بلوچستان ایک وسیع رقبے پر پھیلا ہوا صوبہ ہے۔ اور اکثر و بیشتر علاقوں میں کتابیں پہنچ نہیں پاتیں یا دوری کی وجہ سے وہاں کے لوگ کوئٹہ آنہیں سکتے۔ تو اس صورتحال میں ان علاقوں تک کتابوں کی رسائی اور لائبیریریوں کو آباد کرنا مقصود ہے۔ اس سے دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ لوگوں کا رجحان کتب بینی کی جانب بڑھے گا اور اسکے اچھے اثرات سوسائٹی پر پڑیں گے‘‘۔ ہم ایک مرتبہ پھر اپنے اصل موضوع کی جانب آتے ہیں۔ ’’کتابیں کیوں اہم اور کتب بینی کا رجحان کتنا ہے؟؟ یہی سوال میں نے بلوچ دانشور منظور بلوچ کے سامنے رکھا تو انکا کہنا تھا’’ سوچنے ، تخلیق کرنے اور دوسروں کے تجربے سے استفادہ کرنے کے لئے ہی کتاب اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جب ہم مطالعہ کریں گے تو ہم دنیا کو سمجھنے لگتے ہیں۔ یہاں کتب بینی کا رجحان اس حد تک موجود نہیں، جتنی اسکی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔ پھر کتابوں کی خریداری اور کتب بینی دو الگ موضوعات ہیں‘‘۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ بلوچی اکیڈمی کی جانب سے مختلف لائبریریوں کو کتابوں کی مفت فراہمی عمل میں لائی جارہی ہے تو کیا اس سے کتب بینی کے فروغ میں مدد ملے گی۔ انکا کہنا تھا ’’ کتب بینی کا تعلق اچھی کتابوں سے ہوتی ہے۔بلوچی اکیڈمی کا جو کام ہونا چاہئے وہ کردار ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے کچھ عرصہ قبل کتابوں کے ترجمے اور اشاعت پر لاکھوں روپے خرچ کئے گئے ان میں غلطیوں کی بے تحاشا موجودگی سے خاص نتیجہ نہیں دے سکے۔ ہمیں تخلیق، تنقید اور تحقیق پر مبنی کتابوں کی ضرورت ہے ‘‘۔ 4کتابوں کے مصنف مجاہد بلوچ کا کہنا ہے کہ بلوچی اکیڈمی کی جانب سے شروع کیا جانے والا پروگرام انتہائی اہمیت کا حامل ہے پاکستان میں کہیں بھی کتابیں مفت فراہم نہیں کی جاتیں جو کہ بلوچی اکیڈمی کی جانب سے عمل میں لائی جا رہی ہے۔ اب اکیڈمی کی جانب سے مختلف موضوعات پر کتابیں لکھی جا رہی ہیں اور خاص کر تراجم کا سلسلہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ انکا کہنا ہے کہ کتابوں کی اہمیت ماضی میں تھی اب بھی ہے اور مستقبل میں بھی رہے گی۔ اسکی اہمیت بڑھتی چلی جائیگی۔جدید ٹیکنالوجی تک دسترس نے اسے مزید آسان بنا دیا ہے۔ کفایت اللہ قاضی پیشے کے اعتبار سے ایک وکیل ہیں۔ وکالت کے ساتھ ساتھ وہ کتابوں کو وقت ضرور دیتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انکے گھر میں ایک کمرہ لائبریری کے لئے مختص کیا گیا ہے۔ ان سے پوچھا گیا کہ کتب بینی کا شوق کیسے پیدا ہوا؟؟ ’’ شروع میں شاعری کی کتابوں میں دلچسپی تھی پھر افسانے اور ناول پڑھنا شروع کئے اور اب ہر موضوع کی کتابیں پڑھتا ہوں۔ کتابیں انسان کو وسیع کرتی ہیں۔ یہی کتابیں زندہ رہنا سکھاتی ہیں۔ میں زندگی میں کافی بدلاؤ محسوس کرتا ہوں۔ کتابوں کے بغیر اپنے آپ کو ادھورا محسوس کرتا ہوں‘‘۔ ڈگری کالج پنجگور کے پرنسپل پروفیسر محمد حسین کا کہنا ہے کہ کالج میں ایک لائبریری تو موجود ہے۔ بلوچی اکیڈمی نے لائبریری کے لئے کتابیں ارسال کی ہیں لیکن لائبریریوں میں مطالعے کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے اسکی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ لائبیریرین کا رجسٹرڈ بہت سے اساتذہ کے نام کو ترستی رہتی ہے لیکن انہوں نے آج تک لائبریری سے کتاب کے مطالعے کو نہیں اپنایا جب استاد ہی نہیں پڑھے گا تو طلباء سے مطالعے کی کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ ہمارے ایک دوست اقبال خورشید بھی کتابوں کے مطالعے کا شوق رکھتے ہیں۔ وہ روزنامہ ایکسپریس کے ادبی صفحہ کو اہم ادبی شخصیات کے انٹرویوز سے مزین کرنے کا کام بھی کرتے ہیں آجکل انہوں نے فیس بک پر ایک نیا سلسلہ “One Minute Story”کے عنوان سے شروع کیا ہے۔ اس ایک منٹ کی ویڈیو پیغام میں وہ کسی کتاب کے حوالے سے اپنا تبصرہ ایک منٹ میں بیان میں کرتے ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا اس سلسلے کو شروع کرنے کا خیال کیسے آیا اور اس سے کیا پیغام دیکھنے والوں کو جائے گا۔تو انکا جواب تھا ’’ ایک عرصے سے یہ خیال ذہن میں تھا۔ہم پرنٹ میڈیا سے وابستہ ہیں اور پرنٹ سکڑتا چلا جا رہا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا سے جڑے بغیر آپ اپنی بات پہنچا نہیں سکتے اور یہ سلسلہ میرے اس خواہش کی ایک کڑی ہے ‘‘۔ عابد میر کا ادارہ مہردر بھی پانچ سالوں میں پیچھے نہیں رہا۔ انکا کہنا ہے لوگ پوچھتے ہیں کہ سنگت اکیڈمی آف سائنسز موجود تھی تو ایک نیا ادارہ لانے کی کیا ضرورت۔ تو میرا جواب ہوتا ہے کہ بلوچستان میں اداروں کا فقدان ہے بھلا ایک ادارے پر ہی اکتفا کیوں کیا جائے۔ انکا کہنا ہے کہ ادارے کا مقصد کتابیں بیچ کر کمائی نہیں کرنا بلکہ شعور و آگاہی پھیلانا اور اس مقصد کے لئے ہم اپنے ممبران کو پچاس فیصد رعایت کے ساتھ کتابیں فراہم کرتے ہیں۔ کتابیں کل بھی زندگی کا حصہ تھیں اور آج بھی ہیں۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ کتابیں انسان کو کبھی تنہا نہیں چھوڑتیں۔یہ انسان کو بہت کچھ سکھاتی ہیں نئے راستے دکھاتی ہیں نئے راستے دکھانے اور بہت کچھ سکھانے کے لئے بلوچستان کے ادارے اپنی تیئیں کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ کتاب زندہ باد۔ مطالعہ پائندہ باد۔