|

وقتِ اشاعت :   April 14 – 2016

پسنی ماہی بندر پر مچھلی کی خرید و فروخت دوبارہ شروع ہوگئی اور بندر گاہ نے باقاعدہ کام شروع کردیا ہے جو علاقے میں ایک معاشی انقلاب کی حیثیت رکھتا ہے ۔ وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری نے کمانڈر سدرن کمانڈ اور چیف سیکرٹری کے ہمراہ پسنی ماہی بندر کا دورہ کیا اور ماہی گیروں سے بات چیت کی اور انکے مسائل معلوم کیے ۔ وزیراعلیٰ کو سیکرٹری محکمہ ماہی گیری اور پسنی فش ہاربر کے ایم ڈی علی گل کرد نے باقاعدہ بریفنگ دی اور ان کو بتایا کہ دو ماہ کی قلیل ترین مدت میں ماہی بندر کو دوبارہ فعال بنا دیا گیا ہے جہاں پر ڈھائی ہزار کے لگ بھگ ماہی گیر اپنی پکڑ ی ہوئی مچھلی فروخت کرنے آتے ہیں۔ ایک بہت بڑی منڈی یا ہال ہے جہاں پر مچھلی اپنی مالیت کے حساب خریدی اور فروخت کی جاتی ہے پسنی ماہی بندر میں دو طرح کے لوگ مقامی مچھیروں اور لانچ کے مالکان سے مال خریدتے ہیں ان میں سے ایک گروہ کا تعلق کراچی اور دوسرے کابیرونی ممالک ایران ، متحدہ عرب امارات مسقط اور اومان سے ہیں جن کے تاجر مچھلی خریدنے آتے ہیں جو مکران کے ساحلی علاقوں سے براہ راست مچھلی اور سمندری خوراک اپنے اپنے اداروں کی جانب سے خریدتے ہیں ۔اس میں سب سے بڑی بات یہ ہے کہ کراچی کے تاجروں کی اجارہ داری ختم ہوگئی اور اب تمام تاجر یا ان کے نمائندے بازار کے بھاؤپر مال خریدتے ہیں جس سے ماہی گیروں کو فائدہ پہنچتا ہے ۔جو اس پسنی ماہی بندر اور آکشن ہال کی موجودگی میں ممکن نہیں تھا پسنی ماہی بندر کا فعال ہونا ساحل مکران کی معیشت کیلئے بہت اہمیت رکھتا ہے اس کے ساتھ ہی گوادر کی بندر گاہ میں بھی یہی سہولیات موجود ہیں پسنی ، اورماڑہ کے قرب و جوار کے ماہی گیر اپنی مچھلیاں پسنی فروخت کے لئے لاتے ہیں گوادر اور جیونی کے قرب و جوار کے ماہی گیر گوادر کی بندر گاہ استعمال کرتے ہیں اس سے پاکستانی سمندری حدود میں معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہوگیا ہے اور لوگوں کو روزگار کے ذرائع حاصل ہوئے ہیں ۔علی گل کرد نے اپنی بریفنگ میں جہاز رانی کے چینل اور پسنی بندر گاہ کو ریت کے طوفان سے بچانے کے لئے ڈریجر Dredger کا مطالبہ کیا جس پر وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری نے حکم دیا کہ اس کی پی سی ون تیار کرکے کوئٹہ روانہ کی جائے تاکہ پسنی ماہی بندر کے پاس ریت نکالنے اور جہاز رانی کے چینل کو صاف رکھنے کے لئے اپنا نظام بنایا جائے۔ محکمہ فشریر کو پاکستان نیوی یا کراچی پورٹ ٹرسٹ پر انحصار نہیں کرنا چائیے کیونکہ پسنی ماہی بندر کراچی سے سینکڑوں میل دور ساحل مکران پر واقع ہے اتنی دور سے پسنی ماہی بندر کی روز مرہ کی ضروریات کو کراچی سے پورا نہیں کیا جا سکتا پسنی ماہی بندر کے علاوہ ایک بین الاقوامی ہوائی اڈہ یا ائیر پورٹ بھی ہے جہاں پر بڑے بڑے ہوائی جہاز اترتے ہیں یہ سہولیات ساحل مکران پر کسی بھی شہر کو حاصل نہیں ہیں اسلئے یہ صوبائی حکومت کاکام ہے کہ پسنی سے دنیا بھر کو مچھلی اور سمندری خوراک برآمد کرنے کا انتظام کیاجائے تاکہ کراچی کی اجارہ داری ختم ہو ۔ ادارے براہ راست پسنی اور ساحل مکران سے مال خریدیں اور اپنے اپنے ملک لے جائیں ۔ ایران نے یہ سہولیات ایرانی ساحل مکران کے بندر گاہوں کو دے رکھے ہیں آئے دن بڑی بڑی لانچیں اور جہاز ایرانی مچھلی دبئی اور جاپان کو برآمد کرتے ہیں ۔ حکومت پسنی سے براہ راست مال برآمد کرنے کے تمام انتظامات کرائے آخری بات یہ ہے کہ یہ صوبائی حکومت کا فرض ہے کہ وہ سمندری حدود اور سمندری حیات کی حفاظت کرے، سرکاری سرپرستی یا سرکاری اہلکاروں کی سرپرستی میں کراچی سے ہزاروں ٹرالرز اور ماہی گیری کے لانچ ساحل مکران پر روزانہ تباہی مچا رہے ہیں اس کو ہر حال اور ہر قیمت پر بند ہونا چائیے ۔