|

وقتِ اشاعت :   April 20 – 2016

ادارہ ثقافت کے زیر اہتمام بلوچستان آرٹ گیلری میں ان دنوں دوروزہ تصویری نمائش کا سلسلہ جاری ہے۔ اس نمائش میں ملک بھر سے آئے ہوئے ان آٹھ فوٹوگرافرز کی تصویروں کی نمائش جاری ہے جسکامقصد فوٹوگرافی کے ذریعے بچوں کی تعلیم کی اہمیت اور علم کے شعبے سے جڑے بچوں کی ہمت بڑھانا ہے۔نمائش کا عنوان ’’ روشنی تو تم بھی ہو‘‘ نون میم راشد کی نظم’’ زندگی سے ڈرتے ہو؟زندگی تو تم بھی ہو‘ زندگی تو ہم بھی ہیں‘‘ سے لیا گیا ہے۔ لاہور، راولپنڈی اور کراچی سے آئے ہوئے ان فوٹوگرافرز کی فوٹو گرافی کا خاص
مقصد ان شہید طلباء و طالبات کو خراج عقیدت پیش کرنا ہے جنہوں نے سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی، اے پی ایس پشاور، باچاخان یونیورسٹی چارسدہ اور گلشن اقبال پارک میں شہادت نوش فرمائی تھی۔ پروگرام کے حوالے سے لاہور سے آئے ہوئے فوٹوگرافر محمد سعید راؤ کا کہنا ہے ’’ ہماری تصویری نمائش کا سلسلہ 4مارچ کو لاہور سے شروع ہوا تھا اس نمائش میں 70ہزار سے زائد افراد نے شرکت کی تھی۔ اسکے بعد ہم نے اسلام آباد میں تصویری نمائش کا اہتمام کیا۔ کوئٹہ میں کیا جانے والا نمائش اس سلسلے کی تیسری کڑی ہے‘‘۔انکا کہنا ہے کہ ہمارے اس پروگرام کا مقصد شہید طلباء کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرنا اور لوگوں تک یہ پیغام پہنچانا کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم کے میدان میں آگے لائیں۔ جب پڑھیں گے بچے، تو بڑھے گا معاشرہ‘‘۔ محمد سعید راؤ خود امریکہ میں اپنا چھوٹا بزنس چلا رہے ہیں لیکن انہیں وطن کے بچوں کی محبت یہاں کھینچ لاتی ہے۔ انکا سبجیکٹ کلچر کو ڈاکومنٹ کرکے پوری دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا شعوری مقصد یہیں س تک ختم نہیں ہونے والا ہے۔ ہم اسے آگے لے کر جائیں گے اس سال 16دسمبر کو ایک منفرد پروگرام کا انعقاد کرانے کا ارادہ ہے جسے آرمی پبلک اسکول پشاور میں طلباء کے ساتھ منائیں گے۔پروگرام میں سعید کے علاہ عمیر غنی، آمنہ یاسین، ارشد غوری، ظہیر چوہدری، غضنفر بنڈر، عبدالوارث وحید اور عامر شہزاد کی فوٹوگرافی شامل ہیں۔ فوٹوگرافرز کا کہنا ہے کہ انہیں بلوچستان میں توقعات سے بڑھ کر ویلکم کیا گیا ہے۔ اور ہماری کوشش ہوگی کہ بلوچستان کی تصاویر دیگر صوبوں کو دکھا دیں۔ بلوچستان میں بہت کم ایسے تقریبات منعقد کئے جاتے ہیں جنکا مثبت اثر معاشرے پر پڑے اور اچھا پیغام لوگوں کو جائے۔ اس پروگرام کے لئے 22ایسے بچوں کی تصاویر کا انتخاب کیا گیا ہے جو خود عنوان پیش کر رہی ہیں۔ لیکن بچوں کی اس پروگرام میں عدم موجودگی پروگرام کے لئے ایک سوالات چھوڑ رہی تھی۔ پروگرام میں آئے ہوئے سوشل ایکٹویسٹ امداد بلوچ کا کہنا ہے ’’ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اسے کھلی جگہ بچوں کے اندر کرواتے تو اسے زیادہ پزیرائی ملتی اول تو یہاں لوگوں میں تصویری نمائش کے حوالے سے اتنی آگاہی نہیں دوسری یہ کہ کسی بند ہال میں پروگرام کے حوالے سے بہت سے کم لوگوں کو علم ہوتا ہے‘‘۔ اس تقریب کے لئے بطور مہمان خاص صوبائی وزیر کھیل و ثقافت میر مجیب محمد حسنی کو مدعو کیا گیا تھا۔ پروگرام منتظمین کی جانب سے انکا کافی انتظار کیا گیا جب وہ نہ آئیں تو انکی غیر موجودگی میں انکی پارٹی سے تعلق رکھنے والی خاتون شازیہ لانگو سے نمائش کا افتتاح کیا گیا۔ پروگرام کے منتظم ایڈیشنل سیکرٹری ایجوکیشن عزیز احمد جمالی جو کہ خود بھی فوٹوگرافی کا کافی شوق رکھتے ہیں اور انہوں نے فوٹوگرافی کے لئے اپنی فیس بک پیج پر مختلف علاقوں کے تصاویری البم بنا کے رکھے ہیں۔ کا اس پروگرام کے حوالے سے کہنا ہے کہ یہ فوٹوگرافرز سوشل میڈیا کے ذریعے ان سے رابطے میں تھے جب انہوں نے پروگرام کے لئے حامی بھر لی تو میں نے کہا بسم اللہ۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسی پروگرام کے انعقاد سے ایک مثبت پیغام جائے گا۔ بالخصوص تعلیم کے شعبے پر ایسے پروگرامات کے مثبت اثرات پڑیں گے۔ ادارہ ثقافت بلوچستان کے ڈائریکٹر عبداللہ بلوچ کا کہنا ہے ’’ ہمارا ادارہ ایسے کسی بھی سرگرمی کے لئے تعاون کرنے کو تیار ہے جو تعلیم و ثقافت کو اجاگر کرے ۔ اگر کوئی ادارہ اس قسم کا پروگرام منعقد کروانا چاہے تو ہم انکے ساتھ مکمل تعاون کریں گے‘‘۔ انکا کہنا ہے کہ آگے چل کر ادارہ ثقافت کی جانب سے فوٹوگرافی ، خطاطی اور دیگر پروگرامات شروع کیا جائیگا۔ پروگرام میں آئے ہوئے لوگوں کی کم تعداد اس پروگرام سے لوگوں کی عدم دلچسپی یا کوئی اور سبب اس سوال کے جواب میں پروگرام میں موجود صحافی شہاب عمر کا کہنا ہے ’’ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ زیادہ تر لوگوں کو فوٹوگرافی کے حوالے سے اتنا علم ہی نہیں ہوتادوسری بات یہ کہ لوگوں تک پروگراموں کے حوالے سے بات پہنچ نہیں جاتی۔ اگر آج جتنے چہرے نظر آرہے ہیں کل کوئی دوسرا نمائش رکھا جائے تو 70%لوگ تو یہی ہوں گے۔ یعنی چیزیں ابھی تک بدلی نہیں ہیں۔ پروگراموں میں بہتری لانے کے لئے اول تو اسکی اہمیت اجاگر کی جائے دوسری یہ کہ اس شعبے میں ان نوجوانوں کے لئے روزگار کے ذرائع پیدا کئے جائیں جو اس فیلڈ کی ڈگریاں لئے پھر رہے ہیں‘‘۔ کوئٹہ کی سطح پر منعقد کیا جانے والا پروگرام وقت کی اہم ضرورت تھی جسے ادارہ ثقافت کے تعاون سے ان 8فوٹوگرافرز کی بائیس تصاویر کی نمائش کے ذریعے منعقد کیا گیا جو تصاویروں کے ذریعے سے علم کی افادیت کا درس دیتے ہوئے پروگرامات کا انعقاد کرواتے ہیں۔ اس پروگرام میں جہاں شرکاء نے چند خامیوں کی نشاندہی کی تو وہیں اس پروگرام کو داد دیئے بغیر نہیں رہ سکے۔ شرکاء کا کہنا ہے کہ جہاں بلوچستان سے باہر کی فوٹو گرافی یہاں کے لوگوں کو دکھائی جاتی ہے ویسے ہی بلوچستان کا درست عکس باہر کے علاقوں میں دکھانے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان جہاں بچوں کے حالات زندگی کو عکس بندی کی ضرورت ہے تو وہیں بچوں کی تعلیم کے درمیان ان حائل ان رکاوٹوں کی نشاندہی فوٹوگرافی کے ذریعے سے کرنے کی ضرورت ہے جو تعلیم کی جستجو آنکھوں میں لئے پھرتے ہیں پر انہیں تعلیم تک دسترس حاصل نہیں ہوتی۔ اور انہیں چاہئے کہ معاشرے کے لئے ایک سوال کھڑا کریں کہ بلوچستان میں تعلیمی ادارے گولہ بارود سے محفوظ رہنے کے باوجود یہاں کا تعلیمی نظام ابتر کیوں ہے۔