|

وقتِ اشاعت :   April 23 – 2016

1954کو قائم کی گئی میکانگی روڑ کوئٹہ پر واقع گورنمنٹ ماڑل ٹیکنیکل اسکول بلوچستان کا وہ واحد اسکول ہے جہاں ہنرمندی کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اسکول میں اس وقت 700کے لگ بھگ بچے زیر تعلیم ہیں جبکہ ٹیچنگ اسٹاف کی تعداد 34ہے ۔ اسکول باہر سے انتہائی پرکشش معلوم ہوتی ہے لیکن اندر داخل ہونے پر اسکی کھوکھلے پن کے تمام راز کھل جاتے ہیں ۔ محکمہ ایجوکیشن کی جانب سے قائم کردہ یہ اسکول 57سال گزر جانے کے باوجود وہ معیاری تعلیم دلوانے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے جو ہنرمندی کے شعبے کے لئے اداروں کا خاصہ ہوا کرتا ہے۔ اسکول کی عمارت مخدوش حالت ہیں۔ جبکہ ورکشاپ میں پڑے سامان سسکیاں لیتی محسوس کرتی ہیں۔ ادارے کو کولمبو پلان کے تحت 1959میں جو مشینری مہیا کی گئی وہ اب لگ بھگ ناکارہ ہو چکے ہیں یا اب انکی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ محکمہ ایجوکیشن کی جانب سے اسکول کو جو بجٹ دی جاتی ہے وہ بڑی مشکل سے اسکول کی تھیوری کی ضروریات کو پوری کرسکتی ہے۔ خادم حسین رضا نے بطور پرنسپل اس ادارے کی باگ ڈور جنوری 2016سے سنبھالی ہیں۔وہ اسکول کی ناگفتہ صورتحال پر انتہائی افسردہ نظر آتے ہیں۔ انکا کہنا ہے’’ اسکول میں موجود ٹیکنیکل شعبہ برائے نام کا ہے۔ اتنے عرصے میں اسکول پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ مشینری کافی پرانا ہوچکا ہے۔ اس وقت اسکول میں تین ٹریڈ ٹیکنیکل ، میٹل اور کارپنٹر وہ بھی تھیوری کی حد تک پڑھائے جاتے ہیں‘‘ انکا کہنا ہے کہ موجودہ دور میں ٹیکنیکل شعبے کی پھر بھی ضرورت محسوس کی جاتی ہے لیکن باقی دو شعبوں کی اہمیت انتہائی کم ہو گئی ہے۔ نئی ٹیکنالوجی متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔ جس سے یہ بچے سیکھ کر آگے جاکر ہنرمندی کے شعبے میں فعال کردار ادا کر سکیں۔ عبدالرحمان آٹھویں جماعت کا طالبعلم ہے۔ اس نے کیا سوچ کر اس فیلڈ کا انتخاب کیا اس بارے میں وہ لاعلم ہیں۔ وہ اساتذہ کی موجودگی میں ادارے کی حالت زار پر لب کشائی سے قاصر ہیں۔اور نہ ہی انہیں اس شعبے کے بارے میں زیادہ پتہ ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’ ہمیں یہاں مٹیریل کی کمی کا سامنا ہے ہم خود مٹیریل گھروں سے لاتے ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ اس سیکشن پر توجہ دے‘‘۔ کیا انہیں معلوم ہے کہ پورے ملک میں CPECکے چرچے ہر عام و خاص کی زبان پر ہیں ۔ اس بارے میں وہ لاعلم ہیں۔ انہیں صرف اتنا پتہ ہے کہ وہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ وہ بھی ایک گمنام تعلیم کا حصول ۔ جسکا انہیں خود بھی اندازہ نہیں آگے چل کر اسے کن مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ بلوچستان جہاں تعلیمی شعبے کو ہمیشہ سے نظرانداز کیا گیا ہے۔ تو چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور کے لئے جہاں دیگر صوبوں میں افراد کو ہنرمند بنانے کے لئے سرتوڑ کوششیں کی جارہی ہیں تو وہیں اس پروجیکٹ کی میزبانی کرنے والا بلوچستان شاید اس بات سے لاعلم نے کہ ہنرمندی کے شعبے کو فعال بنانے کے لئے کونسے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے اور اسے کن اداروں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ اسکول کی عمارت اور اس میں بنے ھال کو اس وقت یاد کیا جاتا ہے جب یہاں بورڈ اور یونیورسٹی کو سالانہ امتحانات منعقد کرانے ہوتے ہیں تو کیا اس امتحان سے حاصل ہونیوالی رقم سے اسکول کا حصہ بھی رکھا جاتا ہے جو کہ اس ادارے کی فلاح و بہبود کے لئے خرچ کئے جا سکیں۔ اس سوال کا جواب اسکول میں 2006سے تعینات ورکشاپ سپرنٹنڈنٹ طاہر نزیر دے کر کہتے ہیں’’ نہیں اب تک ماڑل ٹیکنیکل کو اداروں کی جانب سے امتحانات کی مد میں کسی قسم کا تعاون حاصل نہیں رہا ہے ‘‘۔ انکا کہنا ہے کہ کونسا باپ یہ چاہے گا کہ اسکا بیٹا دہکان یا لوہار بنے اب ہر کسی کی خواہش کہ اسکا بیٹا اچھا مقام حاصل کرلے لیکن اس ادارے کے پاس وہ ذرائع موجود نہیں جس سے ان نوجوانوں کو جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کیا جا سکے۔ وہ کہتا ہے کہ امیر اپنے بچوں کو تو بڑے اداروں میں داخلہ دلوا سکتا ہے مسئلہ غریب کے بچے کا ہے جسے یہاں سے فارغ ہوکر اپنے لئے روزگار کا ذریعہ خود پیدا کرنا ہوتا ہے۔ لیکن اس پرانے سسٹم اور ریسورسز کی عدم دستیابی سبب یہ کیا سیکھ سکیں گے۔ اسکول کے کلاسز گزشتہ 5سال سے دسویں کے بجائے آٹھویں جماعت تک محدود کر دیئے گئے ہیں جو ہمارے لئے ایک حیران کن انکشاف تھی۔ جب میں نے اسکی وجہ جاننے کی کوشش کی تو طاہر نزیر کا کہنا تھا ’’ ورکشاپ میں مٹیریل نہ ہونے اور پرانے ٹیکنالوجی سے بیزاری کے سبب بچے آٹھویں سے آگے داخلہ نہیں لے رہے تھے۔ جب کئی سال تک یہ مسئلہ درپیش رہاتو ہمیں بالآخر نویں دسویں کی کلاسز کو ختم کرانی پڑیں کمپیوٹر جدید دور کا اہم اثاثہ سمجھا جاتا ہے جسکے بغیر ہماری دسترس نئی ٹیکنالوجی تک پہنچ نہیں پاتا۔ ٹیکنیکل اسکول میں واقع کمپیوٹر لیب گزشتہ تین سال سے انسٹرکٹر کی عدم موجودگی کی وجہ سے بند پڑا ہے۔ انسٹرکٹر سے محکمہ ایجوکیشن اپنے ڈیٹا کمپائلیشن کا کام لے رہی ہے۔ بچوں کی حسرت بھری آنکھیں روزانہ اس تالے سے دوچار ہوتی ہیں پر نہ ٹیچر حاضر ہوتا ہے اور نہ ہی تالا کھلتا ہے۔ خادم حسین رضا اب بھی پر امید ہیں کہ اس ادارے کی حالت بہتر بنائی جا سکتی ہے جب اسکے لئے بڑے پیکج کا اعلان کیا جائے پرانی ٹریڈ کو ختم کرکے انکی جگہ نئی ٹیکنالوجی کو متعارف کرایا جا سکے۔ بلوچستان کی واحد ٹیکنیکل اسکول جسکی بلڈنگ مخدوش حالت میں ہے۔ مشینری کا فقدان ہے۔ تعلیمی بجٹ میں اسکا نام گمنام صفحوں پر لکھا جاتا ہے ۔ اسکول کے ورکشاپ میں پڑے پرانے آلات، جدید ٹیکنالوجی کی عدم دستیابی، بچوں کی تعلیم صرف تھیوری کی حد تک محیط رہنا اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ بلوچستان کے حکمران یہاں کے نوجوان نسل سے قطعاً مخلص نہیں ۔ اگر حکومت واقعی مخلص ہے تو وہ اعلانات کے ساتھ ساتھ عملی اقدامات اٹھانے میں جلدبازی کا مظاہرہ کرے۔