|

وقتِ اشاعت :   May 2 – 2016

گلف میں فوجی قوت کا زبردست اجتماع نظر آرہا ہے مغربی ممالک کے بعد ترکی نے بھی قطر میں اپنا فوجی اڈاہ قائم کردیا اس کی تصدیق ترک وزیراعظم نے قطر یونیورسٹی کے طلباء سے خطاب کے دوران کی اور یہ بھی اعلان کردیا کہ ترکی نے اپنی افواج بھی اپنے قطر کے فوجی اڈے پر تعینات کی ہیں اور ان میں عنقریب اضافہ کیا جائیگا تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ترک افواج کی تعداد 3ہزار تک ہوگی قطر امریکی سنٹرل کمانڈ کا ہیڈ کوارٹرز بھی ہے جہاں پر 10ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں حال ہی میں امریکہ نے اپنے بی۔ 52 بمبار طیارے قطر کے اڈوں پر پہنچا دیئے ہیں طویل سفر کرنے والے بہت بڑے بمبار طیارے ہیں کو ڈیگو گارشیا سے عراق پر حملہ آور ہوا کرتے تھے اور ویت نام جنگ میں امریکہ نے ان کا زبردست استعمال کیا تھا ان کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ 30ہزار پونڈ وزنی بم اٹھا کر بمباری کرسکتا ہے تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ان طیاروں کو ایران کے زمین دوز فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے کیلئے استعمال کیا جائیگا اس بم کی خصوصیت یہ ہے کہ خندقوں اور زیر زمین ہر قسم کی فوجی تنصیبات کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ان کو Bunker Busterکہا جاتا ہے شاہد امریکہ ایران کے زمین دوز فوجی تنصیبات پر حملہ کر کے ان کو تباہ کرنا چاہتا ہے ادھر بحرین میں امریکی بحری بیڑے کا ہیڈ کوارٹر بھی ہے یہ پانچواں بحری بیڑہ کہلاتا ہے جو گلف میں ہمیشہ موجود رہتا ہے ادھر برطانیہ نے اعلان کردیا ہے کہ وہ بحرین میں اپنا بحری اڈہ دوبارہ قائم کررہا ہے گلف ممالک کی آزادی سے قبل خطے میں برطانیہ کا بڑا بحری اڈہ تھا مسقط اور اومان میں بھی برطانیہ کی فوجی موجودگی ہے اس کے علاوہ امریکہ، برطانیہ اور فرانس کے ایک ایک طیارہ بردار جہاز ساحل مکران، گلف اور گلف آف اومان میں موجود ہیں ان کی مدد کیلئے 50سے زائد صرف امریکی جنگی جہاز خطے میں موجود ہیں تاکہ طیارہ بردار جہازوں کی معاونت کی جائے مصر ایک بہت بڑا اسلامی اور عرب ملک ہے جو آبنائے مندب کے قرب وجوار میں امریکی اور سعودی بحری بیڑہ کی معاونت کررہا ہے اور سکیورٹی کی ڈیوٹی سرانجام دے رہا ہے ان بحری جہازوں نے حال ہی میں کئی ماہی گیری کشتیوں کو روکا ان کی تلاشی لی اور ان سے اسلحہ اور گولہ بارود برآمد کرلیا تھا اس طرح سے مصر اپنی پوری فوجی قوت کیساتھ خطے میں موجود ہے۔ دوسری جانب 34عرب اور مسلم ممالک نے ایک مشترکہ فوج تشکیل دی ہے جس کا مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ خطے کا دفاع کرنا ہے اور امن کو تقویت دینا ہے اس مشترکہ فوج کی سربراہی سعودی عرب کررہا ہے دنیا کے تین بڑے مسلم ممالک پاکستان، ترکی اور مصر اس کے رکن ہیں امریکہ اور اس کے اتحادی بھی اس کی حمایت کررہے ہیں مشترکہ فوج کی جنگی مشقیں حال ہی میں سعودی عرب میں ہوئیں جس میں پاکستان نے بھی شرکت کی پاکستان کے وزیراعظم اور فوج کے سربراہ نے بھی یہ جنگی مشقیں دیکھیں ان تمام باتوں سے یہ صاف ظاہر ہورہا ہے کہ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک اس خطے میں اپنے مفادات کا تحفظ چاہتے ہیں سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کی مغربی ممالک کے مفادات سے ہم آہنگی نظر آرہی ہے اس لئے امریکہ عرب ممالک کے جنگی طیاروں کو یمن پر حملہ کرنے میں معاونت کررہا ہے امریکہ کو حوثی قبائل کا اقتدار پر قبضہ کرنا پسند نہیں حوثی قبائل کو ایران کا حامی سمجھا جارہا ہے بلکہ یہ الزام لگایا جارہا ہے کہ ایران حوثی قبائل کی فوجی اور مالی امداد کررہا ہے امریکی اور دیگر عرب حلقے ایران پر یہ الزام لگا رہے ہیں کہ خطے میں عدم استحکام کی بنیادی وجہ ایران حکومت کی پالیسی ہے ایرانی رضا کار شام اور عراق میں لاکھوں کی تعداد میں ہیں اور ایران اپنا شیعہ انقلاب ہمسایہ ممالک کو برآمد کررہا ہے اور وہ شام، عراق، فلسطین، لبنان، بحرین اور یمن کی مثالیں دیتے ہیں جبکہ ایران اسی کی تردید کررہا ہے غرضیکہ ایران ایک طرف عرب اور امریکی اتحاد دوسری جانب جس کی وجہ سے گلف میں کشیدگی صاف اور واضح انداز میں نظر آرہی ہے اس پورے خطے میں بلوچستان خصوصاً اس کا تین ہزار کلو میٹر طویل ساحل سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے ساحل مکران کا 1800کلو میٹر ایران کے زیر انتظام ہے اور 1200کلو میٹر پاکستانی بلوچستان میں ہے جس کے پاس یہ طویل ساحل جائے گی وہی خطے کا حکمران ہوگا ساحل مکران آبنائے ہرمز سے شروع ہو کر کراچی پر ختم ہوتا ہے یہ مکمل طور پر بلوچ ساحل ہے اور بلوچستان کی صوبائی اسمبلی نے اس کا نام بحر بلوچ رکھ دیا ہے 1875ء میں برطانوی سامراج نے بلوچستان کو صرف اس وجہ سے تقسیم کیا کہ وہ انتہائی وسیع اور عریض خطے پر چند ہزار فوجیوں کے ساتھ حکمرانی نہیں کرسکتا اس لئے اس نے بلوچستان کو ایرانی، افغانی بلوچستان میں تقسیم کیا اور موجودہ بلکہ بلوچ علاقے ایران اور افغانستان کو مختلف معاہدوں کے تحت دے دیئے ایرانی بلوچستان کیلئے باقاعدہ باؤنڈری کمیشن بنایا گیا تھا اس میں سرکردہ شخصیت نواب محراب خان بگٹی جو نواب اکبر بگٹی کے والد تھے شامل تھے بلوچستان کا خطہ آبنائے ہرمز یا کرمان سے شروع ہو کر ڈیرہ جات جس میں ڈیرہ اسماعیل خان کا میدانی علاقہ شامل تھا ٹانک کا پہاڑی سلسلہ بلوچ سرزمین کا حصہ نہیں تھا دونوں فریقوں میں کسی قسم کا تصادم ساحل مکران کی طویل پٹی کی اہمیت میں اضافہ کرتا ہے 1965ء اور1971ء کی جنگوں میں افغانستان اور ایران میں بادشاہتیں تھیں اور بادشاہوں نے پاکستان کا ساتھ دیا تھا اور پاکستان کو ان ممالک سے کوئی خطرہ لاحق نہ تھا لیکن آجکل صورتحال مختلف ہے افغانستان کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں اور ایران کے ساتھ تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں اب یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ ایران کارد عمل کیا ہوگا اگر بھارت کے ساتھ محاذ آرائی شروع ہوتی ہے یا امریکہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ ایران پر حملہ آور ہوتا ہے تو پاکستان کارد عمل کیا ہوگا ظاہر ہے کہ ایران پر ہر طرف سے حملہ ہوگا ساحل مکران کی جانب سے امریکی افواج کے پاس یہ اہلیت ہے کہ وہ ایرانی بلوچستان پر حملہ کرے ایسی صورتحال میں پاکستانی حصہ میں کیا صورتحال ہوگی پاکستان اتحادی ہے ظاہر ہے کہ وہ یہ توقع کریگا کہ فوجی اتحادی پاکستان کی سلامتی کی گارنٹی دیں گے یا گلف کی افواج پاکستانی ساحل کا دفاع کریں اگر بھارت اور افغانستان نے معاندانہ رویہ اختیار کیا البتہ خطے کی حکمرانی انہی قوتوں کی ہوگی جن کے پاس طویل ساحل مکران ہوگا جہاں پر دو عظیم تر بندرگاہیں چاہ بہار اور گوادر زیر تعمیر ہیں ایسی صورت میں سی پیک صرف ایک خواب ہی نظر آئے گا۔