|

وقتِ اشاعت :   May 3 – 2016

یہ خوش آئند بات ہے کہ دہائیوں بعد وفاقی حکومت نے یہ فیصلہ کر لیا کہ عنایت کا ریز ، قلعہ عبداللہ کو بھی قدرتی گیس کی سہولیات فراہم کی جائے ۔ یہ خطہ اہم ہے اور افغان سرحد کے قریب ترین ہے حکومت 55کلومیٹر طویل گیس پائپ لائن پشین سے عنایت کاریز تک لے جائے گی جس سے مقامی لوگوں کو گیس کی فراہمی یقینی ہوگی ۔ دہائیوں بعد پہلی بار بلوچستان کے کسی قصبے کو قدرتی گیس سپلائی کی جارہی ہے ،اس کام کا خیر مقدم کرنا چائیے ۔دوسری جانب سالانہ اربوں خرچ کرکے موجودہ حکومت پنجاب کے دور دراز علاقوں کو گیس کی سہولیات فراہم کررہی ہے ۔ وزیراعظم کے خصوصی فنڈ سے ہر سال اربوں روپے ان اسکیموں کو مکمل کرنے پر خرچ کیے جارہے ہیں ہر طاقتور مقامی شخص وزیراعظم کے پاس جاتا ہے اور وزیراعظم ان کے لئے اور ان کے حلقے کو گیس کی فراہمی کا حکم صادر فرماتے ہیں ۔ادھر بلوچستان میں وفاقی حکومت نے کوئٹہ سے پہلے پشین ، اس کے بعد پشین سے زیارت تک اور اب پشین سے عنایت کاریز تک گیس پائپ لائن بچھائے گی اور دوسری جانب وسطی اور جنوبی بلوچستان میں گیس کی فراہمی بالکل بند کردی ہے ۔ یہاں تک کہ موجودہ وزیراعظم نواز شریف نے ، بلوچستان کے وزیر اعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری کے گھر اور حلقے سوراب کو گیس فراہم نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔ گزشتہ دو دہائیوں سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوا خود وزیراعلیٰ جو ماضی میں وزیر اور سینیٹر بھی رہے ہیں خاص دلچسپی کا اظہار نہیں کیا نیز وفاقی منصوبہ ساز کم نظر ثابت ہوئے انہوں نے جان بوجھ کر کوئٹہ سے پہلے مستونگ اور بعد میں قلات تک گیس کی انتہائی چھوٹی پائپ لائن بچھائی تاکہ پورے وسطی بلوچستان کو کسی بھی طرح گیس کی سہولیات فراہم نہ ہوں ۔ آج بھی وسطی بلوچستان کے دونوں شہروں مستونگ اور قلات میں گیس کی زبردست لوڈشیڈنگ جاری ہے ۔ گیس کے حکام یہ تسلیم کرتے ہیں اس پائپ لائن میں زیادہ گیس فراہم کرنے کی گنجائش نہیں ہے لہذا ایک نئی اور بڑی پائپ لائن بچھائی جائے ۔ اس فیصلے پر ابھی تک عمل درآمد نہیں ہوا ،وجہ۔۔۔ حکام بالا کی دانستہ عدم دلچسپی ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بلوچستان کے دوسرے بڑے شہر خضدار کو جلد سے جلد گیس فراہم کی جائے کیونکہ موجودہ حکومت کا ارادہ ہے خضدار کو سی پیک کا مرکز بنایا جائے اور وہاں پر ایک آزاد صنعتی اور تجارتی زون تعمیر کیا جائے مگر یہ صرف اعلانات ہیں خضدار قدرت کی دی ہوئی ہر دولت سے مالا مال ہے مگر حکومت اس کو گیس اور بجلی فراہم کرنے میں 67سالوں سے ناکام رہی ہے ۔ خضدار کے قرب و جوار میں بیس گھنٹے کی لوڈشیڈنگ جاری ہے ۔ وہاں پر تین سو کلو واٹ کا ایک بہت بڑا ریڈیو اسٹیشن قائم کیاگیا ہے ۔ ریڈیو اسٹیشن کو چلانے کیلئے بجلی دستیاب نہیں ہے ۔ اتنے بڑے اسٹیشن کو صرف ایک مقامی اسٹیشن کے طورپر استعمال کیاجارہا ہے ۔ ریڈیو اسٹیشن کو مکمل طورپر فعال کیا جائے اور چلایا جائے تو اس کی نشریات گلف ،ایران اور افغانستان تک سنائی دیں گی اور پاکستان دشمنوں کے پروپیگنڈے کا بھرپور مقابلہ کر سکتا ہے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ ریاستی پالیسی ہے کہ وسطی بلوچستان یا بلوچستان کے دور دراز علاقوں کو بنیادی سہولیات فراہم نہیں کی جائیں ۔ بلوچستان کے نام پر غیر بلوچوں کو ملازمتیں دی جائیں ان کو بہتر شہری سہولیات فراہم کی جائیں ۔ورنہ کوئی وجہ نہیں تھی کہ سوئی گیس کی سہولیات بھارت کے سرحد کے قریب پنجاب کے دیہاتوں میں پہنچ گئی مگر بلوچستان کے دوسرے بڑے بڑے شہروں خضدار اور تربت کو گیس کی سہولیات سے محروم کر رکھا گیا ہے۔ کوئٹہ کے بعد بلوچستان کی بڑی آبادی کے دو مراکز ہیں ایک خضدار جسے بلوچستان دل کہا جاتا ہے اس کو مرکزی حیثیت حاصل ہے دوسرا بڑا مرکز تربت ہے جو بلوچ ثقافت کا دارالخلافہ ہے ۔