|

وقتِ اشاعت :   May 3 – 2016

پاکستان کے اس سب بے بڑے نیشنل پارک میں زندگی اپنے تمام جلوے بکھرتی نظر آتی ہے یہاں فطرت کا ہر رنگ انتہائی نمایاں ہے چاہے وہ دریا ہو پہاڑ ہوں یا ریگستانی علاقے یا پھر کھلے میدان حیات کی ہر زنگینی اپنی مثال آپ ہے قدرتی ماحول اورجنگلی حیات کی دُنیا بھر میں جتنی اہمیت اج ہے پہلے شاید کبھی نہ تھی بلوچستان کے جنوب میں واقع تین اضلاع آواران، گوادر اور لسبیلہ میں پھیلا ہو ہنگول نیشنل پارک محفوظ علاقوں ایک خاص اہمیت کا حامل ہے اس پارک کا کُل رقبہ 619,043 ہیکڑ 1529634.3 ایکڑ ہے اس رقبے میں تقریباً سات ہزار افراد بھی آباد ہیں جو کسی حد تک اسی نیشنل پارک کے وسائل پر انحصار کرتے ہیں اسی علاقے سے سارا سال بہنے والا دریائے ہنگول گزرتا ہے بحرہ عرب میں گزرتا ہے ہندوؤں کا متبرک مقام نانی ہنگلاج بھی اسی پارک میں واقع ہے جہاں زیارت کے لئے ہندو دور دور سے نظر آتے ہیں بلکہ ہندوستان سے بھی ہندو یاترا کے لئے یہیں آتے ہیں دریاے ہنگول میں اشنان کرنا ان کی مذہبی رسومات میں شامل ہے مختلف ماحولیاتی نظاموں کے باعث یہ علاقہ جنگلی حیات سے مالا مال ہے یہاں نہ صرف مقامی پرندے، آبی پرندے، آبی جانورو، پانی اورخشکی میں بیک وقت رہنے والے جان دار اور رینگنے والے جانور پائے جاتے ہیں بلکہ بہت سے ہجرت کرنے الے پرند ے بھی موسموں کی تبدیلی پر یہاں آمتے ہیں یوں جنگلی حیات کی بہتات کے اعتبار سے ہنگول نیشنل پارک ملک کا ایک منفرد اور اہم نیشنل پارک ہے پارک میں کئے گئے مختلف جائزوں کے مطابق یہاں بکرے اڑیال چکارہ ہرن، چرخ بھیڑیے، لومڑی، گیدڑ، جنگلی بلی، چیتا بلی، سیہہ، مگر مچھ، سبز، کچھوا، گوہ، پنگولین ، مختلف اقسام کے سانپ، چھپکلی، پرندوں میں کوہی کبوتر ، تیتر، سیسی، اور بھٹ تیتر شامل ہیں موسمی پرندوں میں آبی مرغابیاں، تلور، اور باز بڑی تعداد میں آتے ہیں ہنگول نیشنل پارک میں پرندوں کی بہت سی اقسام پائی جاتی ہیں جب کہ خصوصیات یہاں موسم سرما میں ہجرت کرکے آنے والے پرندوں کی کئی اقسام آتی ہیں ان پرندوں میں صرف عقابوں کی 13 اقسام ریکارڈ کی گئی ہیں اورعموماً یہ عقاب یہاں اڑتے پھرتے دکھاتی دیتے ہیں، مارش مگر مچھ، زیتونی کچھووں، سبز سمندری کچھوے کے علاوہ نایاب اور تیزی سے ختم ہونے والی مچھلی کی اقسام جن میں اہم ترین مہاشیر مچھلی شامل ہے یہاں دریائے ہنگول اور سمندر کے ملاپ پر پائی جاتی یہ وہ انواع ہیں جس کی پوری دُنیا میں حفاظت پر زور دیا جارہا ہے کیونکہ اب یہ دُنیا میں تیزی سے ختم ہورہی ہیں ہنگول نیشنل پارک میں تحقیقی بنیادوں پر 2006 سے مختلف پودوں، جانوروں، پرندوں، رینگنے والے جانداروں اور جل تھلیوں کی شناخت، پہچان اور ان کے علاوہ شمار جمع کرنے پر کام شروع کیا گیا تھا جو 2007 کے وسط میں مکمل ہوا پھر مزید کام 2008 میں ہوا اور جب یہ تحقیق مکمل ہوئی تو معلوم ہوا کہ دریائے ہنگول اور ہنگول نیشنل پارک کا پورا علاقہ قدرتی جنگلی حیات سے مالا مال ہے یہاں جنگلی جانوروں کی 35 اقسام، جل تھلیوں اور رینگنے والے جانوروں کی 65 اقسام اور 185 اقسام کے پرندے پائے جاتے ہیں جبکہ یہاں قدرتی طور پر اُگنے والے یعنی خوردہ پودوں کی 250 اقسام پائی جاتی ہیں، ہنگول نیشنل پارک میں جنگلی جانوروں کی 35 اقسام پائی جاتی ہیں ہنگول نیشنل پارک میں اب تک 185 اقسام کے پرندوں کی انواع ریکارڈ کی گئی تھی لیکن تازہ تحقیق کے مطابق ان انواع کی تعداد 204 ہے ان میں سے تقریباً چالیس فیصد پرندے ہجرت کرکے آنے والے پرندے ان میں بہت سے آبی اور سمندری پرندے بھی ہیں جن میں تلور بھی ہیں اور مختلف اقسام کے عقاب اور گدھ بھی جن کی نسلیں آج دُنیا میں بہت سے علاقوں میں تیزی سے کم ہورہی ہیں عقابوں میں یہاں امپریل ایگل، گولڈن ایگل، یا سنہری عقاب لوگر عقاب، جبکہ گدھوں میں گریفون گدھ مصری گدھ وغیرہ اہم ہیں ہنگول نیشنل پارک کے 619,043 ہیکڑ رقبے کی فضا، درختوں، پہاڑوں میدانوں اور پھر اس سے آگے تک ان پرندوں کی حکمرانی ہے ان پرندوں میں سے اکثر یہاں افزائش نسل بھی رتے ہیں عقابوں کی 13 اقسام میں بے بیشتر یہاں موجود رہتی ہیں یا آتی جاتی رہتی ہیں یوں پرندوں کی افزائش اور قیام کے اعتبار سے بھی ہنگول نیشنل پارک کا پورہ علاقہ بہت اہمیت رکھتا ہے اس سلسلے میں بھی ریسرچ کی بنیاد پر سالانہ اعداد شمار جمع کرنے کی ضرورت ہے یہی وہ راستہ ہے جہاں سے سکندر اعظم واپس گیا تھا یہیں پر فاتح سندھ محمدبن قاسم کے سپاہیوں اور فوجی افسران ان کی قبریں ہیں جبکہ اسی مقام پر ہندؤوں کا مقدس مندر ہنگلاج ہے جو ہندو مذہب کی رواج کے مطابق مقدس ترین ہے یہ شاہراہ سے صرف پندرہ کلو میٹر دور ہے یوں سڑک سے اس تک پندرہ کلومیٹر راستہ بنادیا ہے جو اُوپر کی طرف ہنگلاج مندر تک جاتا ہے یہاں سالانہ ہزاروں ہندو یاترا اور مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لئے آمتے ہیں ان میں بھارت سے آنے والی بڑی شخصیات بھی شامل ہوتی ہیں یہ یہاں ہنگلاج دیوی کی پرستش کرتے ہیں اس مندر کے گرد پانی کے تالاب ہیں جن میں کمیاب اور بہترین قسم کی مچھلیاں پائی جاتی ہیں کیونکہ مندر تک جانے والا راستہ دریائے ہنگول سے ہوکر گزرتا ہے اور تھوڑے تھوڑے فاصلے پر مناظر بدلنے اور انوکھے اور منفرد دکھائی دیتے ہیں اس علاقے میں مٹی سے آتش فشاں بھی پائے جاتے ہیں جن میں سے بلند ترین مٹی کا آتش فشاں چندر گپتا ہے جو دُنیا میں مٹی یاگارے کا سب سے بلند اور زندہ آتش فشاں ہے اگرچہ علاقے میں ماضی قریب میں کوئی بڑا زلزلہ نہیں آیا لیکن بہر حال یہ زندہ آتش فشاں بھی اپنے شعبے کی تحقیق کے لئے منتظر ہے کیونکہ یہ دُنیا کا بلند مٹی یاگارے کا آتش فشاں ہے۔