|

وقتِ اشاعت :   June 26 – 2016

کوئٹہ :  بلوچستان بار کونسل کے ممبران ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن کے صدر اور بلوچستان بارایسو سی ایشن کے صدر کا ایک ہنگامی اجلاس منعقد ہوا اجلاس میں گزشتہ ماہ کے 24تاریخ جمال عبدالناصر ایڈوکیٹ کے ساتھ محکمہ پولیس کے اہلکاران کے ناروا سکول کو زیر بحث لایا گیا یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ مزکورہ ایڈوکیٹ کو رات کے وقت اپنے دفترسے گھر جاتے ہوئے جے ٹی ایف کے اہلکاروں نے روک کر بری طرح زد و کوپ کیا جس کے نتیجے میں وکیل صاحب کئی دنوں تک سول ہسپتال میں زیر علاج رہے۔ اس بابت پولیس تھانہ ستی میں مقدمہ نمبر 80/2016کو درج ہوا اس کے بعد بار کی جانب سے تین دن تک مسلسل پڑتا ل جاری تھا جانب ڈی آئی جی بلوچستان کی یقین دہانی پر ہڑتال ختم کردیا گیا اس یقین دہانی میںیہ بات شامل تھی کہ مذکورہ اہلکاران کو قانون کے مطابق گرفتار کیا جاکر محکمانہ انکوائری بھی شروع کی گئی ہے ۔ اور ان کو معطل کیا گیا ہے لیکن بعد میں پتہ چلا کہ نہ تو پولیس اہلکاران گرفتار ہوئے اور نہ ہی انہیں محکمانہ کارروائی کے تحت معطل کیاگیا ہے ۔ یہ ایک افسوسناک عمل ہے کہ ایک ذمہ دار پولیس آفیسر نے غلط بیانی سے کام لیا اور بار کے عہدیداران کو گمراہ کیا مزید ستم ظریفی کہ الٹا پولیس کی مدعیت میں ایڈوکیٹ جمال عبدالناصر کے خلاف جھوٹا مقدمہ درج کیا گیا ہے ۔ اجلاس نے واقعہ کا سختی سے نوٹس لیا اور یہ فیصلہ کیا کہ معاملہ کا فوری طورپر نوٹس لیا جائے اور ملزمان پولیس اہلکاران کے خلاف فوری طورپر ایکشن لیا جائے ورنہ سکت اقدام اٹھایا جائے گا۔ اجلاس میں مزید فیصلہ کیا گیا کہ مورخہ 8جون کو بریسٹر امان اللہ خان اچکزئی کے قتل کے اسباب تاحال معلوم نہ ہوسکے ۔ نہ کوئی ملزم گرفتار کیا جا سکتا اور نہ ہی کوئی تسلی بخش تفتیش کی گئی پولیس کے اس رویئے کی بھر پور مذمت کی گئی آخر میں اجلاس نے متفقہ فیصلہ کیا گیا کہ اگر پولیس نے جمال ناصر کے کیس میں نامزد پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی نہ کی اور بیریسٹر امان للہ کے قاتلوں کو گرفتار نہ کیا تو بار کیجانب سے سخت اقدامات اٹھائے جائیں گے جس کی تمام تر ذمہ داری محکمہ پولیس پر عائد ہوگی ۔