|

وقتِ اشاعت :   August 22 – 2016

کراچی:  زندہ انسان لاکھ جبکہ مردہ سوا لاکھ کا‘بلوچستان کے ضلع خضدار کے علاقے گزگی کا رہائشی 22سالہ ریحان رند جو خضدار ڈگری کالج کا طالب علم ہے اس وقت کینسر جیسے خطرناک مرض میں مبتلا ہے ان دنوں آغا خان میں زیر علاج ہیں مکمل علاج کیلئے 31لاکھ روپے درکار ہیں جو ریحان رند کے اہلخانہ کے بس کی بات نہیں‘ ریحان رند کو ہرروز خون کی اشد ضرورت بھی پڑتی ہے انفرادی طور پر ان کے عزیزواقارب ساتھی بھرپور طریقے سے اس کی زندگی بچانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں اور آغا خان ہسپتال میں بلوچستان اورکراچی کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلباء و اساتذہ دوست احباب خون عطیہ کرنے کیلئے آرہے ہیں مگر ان تمام خلوص جہد کے باوجود خون اور روپے کی ضرورت ریحان رند کو زندگی سے دور لے جارہی ہے ریحان رند ہونہار طالب علم کے ساتھ ذہین بھی ہیں ریحان رند پڑھائی کے ساتھ ساتھ پرائیوٹ انسٹیٹیوٹ میں ٹیچنگ بھی کرتے رہے ہیں تاکہ وہ اپنی پڑھائی کے اخراجات خود مکمل کرنے کے ساتھ دیگر نوجوانوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرسکیں‘ آج ریحان رند بے بسی کی ایک تصویر بن کر رہ گئے ہیں‘ریحان رند کے اہلخانہ نے بلوچستان کے چند وزراء سے بیماری کے علاج کے متعلق آگاہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ اگر ریحان رند بلوچستان کے کسی ہسپتال میں زیر علاج ہوتے تو ہم علاج کیلئے پوری مدد کرتے اب سوال یہ ہے کہ بلوچستان میں اس خطرناک بیماری کیلئے کونسا ہسپتال موجود ہے جو ریحان رند کا بہترطریقے سے علاج کرسکے شاید جواب نفی میں ہی ہوگا‘ بلوچستان حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس نوجوان کو ایک نئی زندگی دینے کیلئے اپنا کردار ادا کرتے ہوئے علاج کیلئے مدد کرے تاکہ ایک روشن دیہ بجھ نہ سکے‘ دوسری جانب اسی ہسپتال میں معصوم سی ہنس مک کمسن بچی نور بی بی بھی زیر علاج ہیں جو بدقسمتی سے اسی خطرناک مرض میں مبتلا ہے‘ نوربی بی گزشتہ کئی سالوں سے اس بیماری کے ساتھ لڑرہی ہیں جب آغاخان ہسپتال میں ان کے بیڈ پر جاکر اُن کی حال پرسی کی تو مسکراہتے ہوئے کہاکہ معلوم نہیں کب یہاں سے آزاد ہونگی‘ اب حیرانگی کی بات ہے کہ وہ کہاں سے آزادہونا چاہتی ہے زندگی سے یا اس مرض سے جس کا وہ مقابلہ کرتے کرتے اب تھکتی جارہی ہیں مگر اس کا حوصلہ اور سہارہ بھی ہمیں بننا ہوگا‘ نور بی بی کے والد جو خود ایک آرٹسٹ ہیں جنہوں نے مختلف شارٹ بلوچی فلموں کے ساتھ ڈاکومینٹری بنائے ہیں مگر اُن کے پاس اتنی رقم نہیں کہ وہ اپنی معصوم پھول جیسی بچی کے علاج کیلئے 35لاکھ روپے کا بندوبست کرسکیں‘طارق مراد اور اُن کی اہلیہ بھرپور کوششوں میں لگے ہوئے ہیں اس کے ساتھ طارق مراد کے شاگرد‘آرٹسٹ سمیت دوست احباب بھی اُن کے ساتھ مکمل تعاون کررہے ہیں مگر طارق مراد کا کہنا ہے کہ جب تک نور بی بی کے علاج کیلئے وزیراعلیٰ سندھ اپنا کردار ادا نہیں کرینگے تو علاج کیلئے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا انہوں نے کہاکہ وزیر صحت سندھ نے مکمل یقین دہانی کرائی ہے کہ نور بی بی کے علاج کے حوالے سے وزیراعلیٰ کے پاس تمام دستاویزات بھیج دیے گئے ہیں اورجلد ہی خوشخبری ملے گی‘ طارق مراد نے تمام دوستوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہاکہ نور بی بی کو آغاخان میں داخل کرنے کیلئے 15لاکھ روپے درکار تھے جو اندرون وبیرون ملک سے دوستوں کی محنت وکاوشوں سے پوری ہوئی امید کرتاہوں کہ بیٹی کی صحتیابی کیلئے دوست واحباب ساتھ دینگے اور اس کے ساتھ سندھ حکومت کی مالی امداد انتہائی ضروری ہے۔ ریحان رند اور نور بی بی اب زندہ ہیں ان کو بچانے کیلئے سب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنا کردار ادا کریں خاص کر حکومت بلوچستان اور سندھ مالی مدد کرے تاکہ ریحان رنداور نوربی بی جلتے دیے بجھ نہ پائے ‘ ایسا نہ ہو کہ زندہ لاکھ مراتو سوا لاکھ کا۔