|

وقتِ اشاعت :   July 29 – 2016

اسلام آباد : وفاقی وزیر برائے سیفران عبدالقار بلوچ نے جمعرات کو سینٹ کے اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران کہا ہے کہ حکومت افغان مہاجرین کو 31 دسمبر 2016 کے بعد مزید توسعی نہیں دے گی ۔ 30 فیصد افغان مہاجرین کیمپوں میں جبکہ 70 فیصد کیمپوں سے ہر بڑے شہروں ، اسلام آباد ، کراچی ، کوئٹہ اور پشاور میں مقیم ہیں افغان مہاجرین دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث نہیں جبکہ سٹریٹ کرائم میں ملوث ہیں انہوں نے کہا کہ حکومت کو معلوم ہے کہ افغان مہاجرین ملک کے کس کس جگہ پر رہائش پزیر ہیں صوبائی حکومتیں اور متعلقہ پولیس بھی افغان مہاجرین کی رہائش سے متعلق آگاہ ہیں پاکستان میں اس وقت 1.5 ملین رجسٹرڈ اور تقریباً ایک ملین غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین موجود ہیں ۔ غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی نشاندہی افغان وفد کرے گا رجسٹرڈ افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی کے لئے سہہ فریقی معاہدہ پاکستان ، افغانستان اور یو ای نایچ سی آر کے مابین طے پا چکا ہے وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد نے سینیٹر حافظ محمد اللہ کے سوال کے جواب میں کہا کہ گزشتہ تین سال می نادرا کے افسران کے بیرون ملک دوروں پر 9 کروڑ روپے خرچ کئے گئے تین سالوں میں چیئرمین نادرا نے دو مرتبہ جبکہ افسران نے 192 غیر ملکی دورے کئے نادرا افسران نے 2014 میں 58 ، 2015 میں 83 اور 2016 میں 51 دورے کئے انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے 31 اضلاع میں نادرا کے 63 سنٹرز کام کر رہے ہیں جبکہ کے پورے ملک بشمول آزاد کشمیر ، گلگت بلتستان میں 560 سنٹرز کام کر رہے ہین سب سے زیادہ بلوچستان میں آمدن کوئٹہ سنٹر اور سب سے کم آمدن زیارت سنٹر سے ہوتی ہے انہوں نے بتایا کہ نادرا افسران بیرون ملک دورے تربیت حاصل کرنے یا تربیت دینے کے لئے کرتے ہیں نادرا افسران کینیا اور سری لنکا سمیت دیگر ممالک میں تربیت دینے کے لئے جاتے ہیں دیگر ملکوں میں نادرا افسران کو تربیت حاصل کرنے کے لئے دورے کرنے پڑتے ہیں نادرا کے سسٹم کو جدید بنا دیا گیا ہے اب جعلی شناختی کارڈ بننے کی کوئی گنجائش نہیں رہی ۔وفاقی وزیر سیفران جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے کہاہے کہ فاٹا میں کسی بھی سکول کو بند نہیں کیا جائے گا،فاٹا سے متعلق ریشنلائزیشن پالیسی کا دوبارہ جائزہ لیا جارہا ہے ،فاٹا کے عوام کو درپیش مسائل کے حل اور قبائلی عوام کی زخموں پر مرحم رکھا جائے گا ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایوان بالا میں فاٹا میں سکولوں کی بندش کے حوالے سے تحریک التو پر بحث کو سمیٹتے ہوئے کیا اس سے قبل تحریک التو پر بحث کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر اعظم سواتی نے کہاکہ فاٹا کے 8سینیٹر ایوان میں موجود ہیں جو قبائلی علاقوں کی نمائندگی کرتے ہیں اگر فاٹا میں تعلم کو اجاگر کرنا ہے اور سکولوں کوبہتر کرنا ہے انہوں نے کہاکہ فاٹا میں پہلے ہی تباہی ہوچکی ہے مگر اس کے باوجودوہاں پر ریشنلائزیشن پالیسی کے تحت سکول بند کئے گئے ہیں سینٹر صالح شاہ نے کہاکہ 497سکولوں کو بند کرکے 50ہزار سے زائد طلباء و طالبات کو تعلیم سے محروم کیا گیا ہے اور اسی طرح شمالی و جنوبی وزیر ستان کو اربوں روپے کے فنڈز سے محروم کیا گیا ہے انہوں نے کہاکہ 2015میں ریشنلائزین پالیسی کے تحت تعلیم اور صحت کے مراکز بند کئے گئے ہیں انہوں نے کہاکہ شمالی اور جنوبی وزیر ستان میں اپریشن کی وجہ سے کثیر آبادی نقل مکانی کر چکے ہیں اور اس پالیسی کے تحت سکولوں میں 70فیصد طلباء لانا ممکن نہیں ہیں انہوں نے کہاکہ جن ترقیاتی منصوبوں پر 70فیصد کام کیا گیا ہو اس کو مذید فنڈز دیں گے اس کے تحت17ہسپتال دو ماڈل سکول بند کئے گئے ہیں