|

وقتِ اشاعت :   August 28 – 2016

کوئٹہ(این این آئی )سیکرٹری بین الا صوبائی رابطہ بلوچستان عبدالصبورکاکڑ نے کہا ہے کہ بلوچستان ایگزامنیشن اسسمنٹ کمیشن کا قیام بلوچستان میں تعلیمی نظام کی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو گا اخبارات میں بعض پرائیویٹ سکولوں کی طرف سے غلط رائے قائم کرنے کی کوشش ہو رہی ہے یہ انتظامی ادارہ نہیں بلکہ اس کامقصد صوبے میں موجود تعلیمی نظام کی استعداد کو دیکھنا ہے پبلک سروس کمیشن بلوچستان نے تحریری طورپر رپورٹ دی ہے کہ صوبے میں 52کالجز نے بلوچستان کی طلباء کو بی ایڈ اور ایم ایڈ کی ڈگری دی ہے ان طلباء کو یہ معلوم نہیں ان کا کالج کہا ں ہے اور ایم ایڈ اور بی ایڈ کی ڈگری کا مقصد کیا ہے جس پر بحیثیت محکمہ تعلیم کے ذمہ دار شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔یہ بات انہوں نے گزشتہ روز مقامی ہوٹل میں بلوچستان ایگزامنیشن اسسمنٹ کمیشن (بیک) کے ڈرافٹ کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے کہی‘ انہوں نے کہا کہ ان کو اس بات کی خو شی ہے کہ بحیثیت سیکرٹری تعلیم کے 2015میں اس منصوبے پر کام شروع کرایاتھاجو آج اپنی تکمیل کو پہنچ رہا ہے اس سے بلوچستان کے تعلیمی نظام میں انقلا ب برپا ہو گا در اصل اس کا مقصد صرف اس بات کی نشاندہی کرے گا کہ ہمارے تعلیمی نظام میں خرابیاں کہاں موجود ہیں بعض پرائیویٹ سکولوں کی جانب سے یہ تاثر بالکل بھی غلط ہے کہ یہ امتحان لینے والا ادارہ ہے بلکہ ایک امتحان لینے والا نہیں ایک ٹیسٹ لینے والا ادارہ ہوگا جوکہ محکمہ تعلیم پنجاب پہلے اپنے صوبے میں اس کو متعارف کراچکی ہے انہوں نے کہا کہ یہ ایک طلباء4 کا ایک جنرل ٹیسٹ لے گاتاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ سکولوں کا ٹیچنگ ‘معیار کیا ہے اور ٹیکسٹ بورڈ کا نصاب کیسا ہے تعلیمی نظام میں محکمہ تعلیم کوموجود خامیوں کے اصلاح کا موقع ملے گا اور اس بات کی نشاندہی کریگا کہ تعلیمی نظام میں خرابیاں کہا ں کہاں ہیں انہوں نے کہا کہ اس سے بڑی دکھ کی بات کیا ہو سکتی ہے کہ بلوچستان پبلک سروس کمیشن نے رپورٹ دی ہے کہ بلوچستان میں 52کے قریب کالجزوجود رکھتے ہیں جن کے بارے میں وہاں سے فارغ ہونے والے طلباء کو معلوم نہیں کہ وہ کہا ں واقع ہے اور یہ کالجز پیسے لیکر جعلی ڈگریاں جاری کر تے ہیں بحیثیت ممبر ہا ئیر ایجوکیشن کے بلوچستان یونیور سٹی سمیت دو دیگر یونیورسٹیوں پر لکھ چکا ہوں کہ وہ اس جعلی کالجز کے بارے میں اپنی پوزیشن واضح کریں لیکن تاحال کوئی جواب نہیں آیا ہے ایسا لگتا ہے کہ معاملے کو چھپایا جارہا ہے اس وقت ہائیر ایجوکیشن کمیشن میں بلوچستان کی ان کالجز کی جاری کردہ 2000کے قریب ڈگریاں پڑی ہیں جس کی تصدیق نہیں ہورہی ہے جب تک ہم اداروں پر چیک اینڈ بیلنس نہیں رکھیں گے تو نظام ٹھیک نہیں ہوگاجب یونیورسٹی کی سطح پر اتنی بڑی ڈگریاں جعلی جاری ہورہی ہے تو پرائمری سکولوں کا سرٹیفکیٹ جاری کرنیوالے کا کون پوچھے گا انہوں نے کہا کہ جب وہ سیکرٹری تعلیم تھے تو کوئٹہ اور موسیٰ خیل کے دو ایسے سکولوں کا پتہ لگایا کہ جہاں پر ان سکولوں میں طلباء جماعت سوئم تک ان رول تھے لیکن وہاں سے سرٹیفکیٹ اٹھویں جماعت کی جاری کیے جارہے تھے اس سے بہتر ہے کہ ہم نوجوانوں کا مستقبل تباہ کرنے کی بجائے ان کو جعلی تعلیمی ڈگری دے اور آنیوالے نسل کو بھی اس سے متاثر کریں ان کو ٹیکنیکل ایجوکیشن جس میں سائیکل کی مرمت و یلڈنگ کا کام اور دیگر ہنر سکھائیں بجائے ہم ان سے پیسے لیکر بی ایڈ ایم ایڈ کی جعلی ڈگریاں دیتے ہیں یہ ان پڑ ھ ڈگری ہولڈر ہوتے ہیں جو ہمارے مستقبل کو آپائیج بنانے میں کوئی کثر نہیں چھوڑتے اس فضا ء کو ختم کرنے کیلئے ہمیں سٹینڈر اپلائی کرنا ہوگا جس سے اداروں اور افراد کے دلوں میں خوف موجود ہو انہوں نے کہا کہ وہ چےئرمین بیک سعد اللہ توخی کی کاوشوں کو سراتے ہیں کہ انہوں نے اس مشکل ٹاسک کو عملی جامع پہنا تے ہوئے اس کی تکمیل کے آخری مراحل میں لا کر کھڑ اکر دیا ہے میں بحیثیت سابق سیکرٹری تعلیم کے اور اس ٹیم کا سابق حصہ ہونے کی حیثیت جہاں میر ی مدد کی ضرورت میں ان کیلئے دستیاب ہونگاایگزامنیشن اسسمنٹ کمیشن سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے اصلاحات ہے اس میں ہمیں ہر صورت میں تعلیمی نظام کو ٹھیک کرنا ہے اس بات کا ہم اعا دہ کر چکے ہیں کہ کسی کے پسند ونا پسند پر ہم اس منصوبے کو کسی بھی صورت میں انڈو نہیں کرینگے۔