|

وقتِ اشاعت :   August 30 – 2016

کوئٹہ:  کوئٹہ میں ریسکیو 1122کے اہلکاروں نے تنخواہیں نہ ملنے پر ہڑتال شروع کردی۔لسبیلہ میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں جانے سے بھی احتجاجاً انکار کردیا۔ ہڑتالی ملازمین کا کہنا ہے کہ مطالبات پورے ہونے تک ایمرجنسی آپریشنز میں حصہ نہیں لیں گے ۔دوسری جانب محکمہ پی اینڈ ڈی، محکمہ خزانہ اور پی ڈی ایم اے حکام کے درمیان رولز اینڈ ریگولیشنز نے تنخواہوں کی ریلیز میں ایک دوسرے کو رکاوٹ قرار دیدیا۔ تفصیلات کے مطابق کوئٹہ میں رواں سال جنوری میں ریسکیو1122سروس کا آغاز کیا گیا تھا جس کیلئے34اہلکاروں کو کنٹریکٹ بنیادوں پر کئی مہینے پہلے بھرتی کیا گیا تھا۔ انہیں لاہور میں6مہینے کی تربیت دی گئی جہاں انہوں نے لاہور کے سندر اسٹیٹ میں فیکٹری گرنے کے بعد پاک فوج کے ساتھ ملکر ریسکیو کارروائیوں میں بھی حصہ لیا۔ تربیت مکمل کرنے کے بعد اہلکاروں نے دسمبر2015ء میں کوئٹہ میں ریسکیو 1122کو جوائن کیا ۔ اہلکاروں کے کنٹریکٹ میں فروری2016ء میں ایک سال کی توسیع کی گئی اور اس کے بعد جون تک انہیں چار مہینوں تک تنخواہیں نہیں دی گئیں۔ جون میں عید کے قریب آتے ہی پی ڈی ایم اے نے مجبوراً اپنے ریلیف بجٹ سے ملازمین کو چار ماہ کی تنخواہیں یکشمت دیں تاہم اس کے بعد سے ملازمین کو تنخواہیں اب تک نہیں ملیں۔ ملازمین کا کہنا ہے کہ ان کے گھروں میں فاقے پڑرہے ہیں اور وہ نان شبینہ کے محتاج ہوگئے ہیں۔ بچوں کے دودھ کا خرچہ بھی پورا نہیں ہورا۔ ملازمین کو اب کوئی ادھار بھی نہیں دے رہا۔ ملازمین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ریسکیو 1122کے پاس کوئی آلات اور مشنری نہیں۔ ریسکیو 1122کے پاس کوئٹہ میں صرف ورلڈ بینک کی جانب سے عطیہ کی گئیں5ایمبولنسز ہیں ۔ ایمرجنسی آپریشنز کے دوران اہلکاروں کے پاس سیڑھی اور رسی تک نہیں ہوتیں۔ ملازمین نے بتایا کہ انہیں ریسکیو آپریشن کیلئے نہ صرف کوئٹہ بلکہ باقی اضلاع بھی بھیجا جاتا ہے لیکن ضروری آلات فراہم کئے جاتے ہیں اور نہ ہی سفری اخراجات دیئے جاتے ہیں۔ ملازمین اپنے مستقبل کے حوالے سے غیر یقینی کا شکار ہیں۔ ان کے پاس گھر سے دفتر آنے اور جانے کا کرایہ تک نہیں ہوتا۔ باقی صوبوں میں ریسکیو1122کے اہلکاروں کی تین شفٹیں ہوتی ہیں اور شفٹ ختم ہونے کے بعد اس کے اہلکاروں کو دوبارہ آفس طلب نہیں کیا جاتا لیکن یہاں اہلکاروں کو شفٹ ختم ہونے کے بعد بھی بلایا جاتا ہے۔ملازمین نے ڈی جی پی ڈی ایم اے کو ایک خط کے ذریعے آگاہ کیا ہے کہ وہ تنخواہیں ملنے تک ایمرجنسی آپریشنز میں حصہ نہیں لیں گے۔ ملازمین کا کہنا ہے کہ اگر انہیں تنخواہیں نہیں دینی تھیں اور مستقل ہی نہیں کرنا تھا تو ان پر سرکاری خزانہ سے پنجاب میں چھ ماہ کی تربیت پر بڑی رقم کیوں خرچ کی گئی ۔ ملازمین کا کہنا ہے کہ وہ میرٹ پر کسی سفارش کے بغیر تعینات ہوئے اس لئے ان کے خلاف سازش کی جارہی ہے ۔بااثر حلقے چاہتے ہیں کہ وہ اپنے من پسند افراد کو پی ڈی ایم اے میں ملازمتیں دے کر نوازیں۔ملازمین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ریسکیو انتہائی ذمہ داری کا کام ہے ۔ ریسکیو اہلکار پولیس اور دیگر اداروں کی طرح وردی والے اہلکار ہوتے ہیں۔ وہ اپنی جان پر کھیل کر لوگوں کی جان بچاتے ہیں ۔ اپنے مستقل کے حوالے سے غیر یقینی کا شکار ملازمین کیسے یکسوئی کے ساتھ اپنے فرائض دے سکتے ہیں ۔ اگر ریسکیو کے دوران کسی اہلکار کی جان چلی جاتی ہے تو کنٹریکٹ ملازم کی حیثیت سے اس کی لائف انشورنس بھی نہیں ہوئی ۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ریسکیو1122کے اہلکاروں کو مستقل کیا جائے تاکہ وہ ذہنی کوفت سے چھٹکارا پاسکے۔ اس سلسلے میں محکمہ پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ، محکمہ خزانہ اور پی ڈی ایم اے حکام کا مؤقف لیا گیا تو تینوں نے ایک دوسرے پر ذمہ داری عائد کی۔ محکمہ پی اینڈ ڈی کے حکام نے بتایا کہ ریسکیو1122کے پراجیکٹ کیلئے 257ملین روپے کی رقم ریلیز کردی گئی تھی جس میں ملازمین کی ایک سال کی تنخواہ بھی شامل تھی۔ جس کے بعد یہ پراجیکٹ پی ایس ڈی پی سے ختم کردیا گیا