|

وقتِ اشاعت :   August 30 – 2016

افغانستان میں جب جنگی حالات پیدا ہوئے تو لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین نے پاکستان کا رخ کیا جن میں بیشترکی حالت انتہائی خستہ اور معاشی حالات بھی دگرگوں تھے ۔جب وہ یہاں آئے توپاکستان نے 1979ء سے لیکر اب تک اُن کی بہتر ین مہمان نوازی کی‘ اسی وجہ سے مہاجرین کی آمد کا سلسلہ تیز ترہوتاگیامگر افسوس حکومت پاکستان کی جانب سے اس حوالے سے کسی طرح کی پالیسی مرتب نہیں کی گئی کہ آنے والے حالات کس نہج پر پہنچ سکتے ہیں جو مہاجرین کی صورت اختیارکرکے دہشت گردی میں ملوث ہونگے آخرکار یہی ہوا روز اول سے اس بات پرزور دیاجارہا تھا کہ ملک میں داخل ہونے والے غیرقانونی مہاجرین پر نظر رکھی جائے تاکہ بڑے سانحات رونما نہ ہوسکیں مگر سانحہ کوئٹہ8اگست 2016ء سیاہ دن ثابت ہوا جب سول ہسپتال کوئٹہ میں خود کش حملہ کیاگیا جس میں بلوچستان کے علمی خزانے کوبہت بڑا نقصان پہنچایا گیا اس میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں‘ اس سانحہ کے بعد یقیناًسیکیورٹی معاملات پر غور وفکر کیا گیا اور اس دہشت گردی کی وجوہات اور پس پشت عوامل کو ڈھونڈا گیا نتیجہ یہی نکلا کہ دہشت گردوں کے سہولت کار مہاجرین کی صورت میں بلوچستان میں موجود ہیں۔اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ تمام افغان مہاجرین دہشت گردی سمیت سہولت کاری میں ملوث نہیں بلکہ یہ وہ عناصر ہیں جو مہاجرین کا روپ دھار کر یہ کام کررہے ہیں تاکہ انارکی پھیلے اور بلوچستان میں شدت پسندی کوہوا دے کر دہشت گردی جیسے حالات پیدا کیا جائے۔ ماضی کی حکومتوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے شدت پسند اپنے پنجے یہاں مضبوط کرنے میں کامیاب رہے اور اس کے تدارک کیلئے کوئی جامع پالیسی مرتب نہیں کی گئی جس کا خمیازہ آج بھگتاجارہا ہے اگر اول روز سے ہی مہاجرین کیلئے قانون سازی کی جاتی اور اُن پر نظر رکھی جاتی تو آج یہ دن دیکھنا نہ پڑتا ۔ اب جو مہاجرین کے انخلاء کے حوالے سے تیزی آرہی ہے اس بات پر بھی غور کیاجائے کہ جو مہاجرین معاشی اور جنگی حالات کی وجہ سے یہاں قانونی طور پر رہائش پذیر ہیں اُن کے ساتھ رویہ نرم رکھاجائے تاکہ دنیا کو واضح پیغام مل سکے کہ تین دہائیوں سے زائد عرصہ تک مہاجرین کے ساتھ پاکستان کا برتاؤ بہتر رہا اور آئندہ بھی رہے گا مگر غیر قانونی طور پر رہائش پذیر افغان مہاجرین جو دہشت گردی اور سہولت کاری میں ملوث ہیں ان کے ساتھ انتہائی سختی سے نمٹاجائے تاکہ مہاجرین اپنے یہاں کسی دہشت گرد کو پناہ نہ دے سکیں اور اس کے ساتھ بلوچستان کی قوم پرست پشتون جماعتوں، مذہبی جماعتوں کابھی فرض بنتا ہے کہ وہ افغان مہاجرین انخلاء کے حوالے سے اپنامثبت کردار ادا کریں۔ مہاجرین کی آڑ میں یہی دہشت گرد جن کا کوئی قوم اور مذہب نہیں صرف دہشت گردی ان کا وطیرہ ہے ، ان کے لیے نرم گوشہ اختیارکرنا اپنے عوام کے ساتھ ناانصافی ہوگی ۔ کوئٹہ میں گزشتہ چند دنوں کے دوران تین ہزار سے زائد مہاجرین کو گرفتارکیاگیا ہے اور کچھ مدرسوں کوبھی سیل کیا گیاہے جو حکومتی سنجیدگی کا واضح ثبوت ہے مگر اس سے بڑھ کر اُن دہشت گردوں اور اُن کے سہولت کاروں کو بھی منطقی انجام تک پہنچانا ضروری ہے جس کیلئے بلوچستان کی تمام سیاسی ومذہبی جماعتوں کا کلیدی کردار ضروری ہے تاکہ اس معاملے پر کوئی ابہام نہ رہے۔بلوچستان حکومت کو اب اس کریک ڈاؤن کو مزید وسعت دینا ہوگا تاکہ بلوچستان کے دیگر اضلاع میں موجود غیر قانونی تارکین وطن کو گرفتار کرکے انہیں واپس باعزت طور پر ان کے وطن بھیجا جاسکے اور اس کے ساتھ افغان حکومت کے ساتھ مکمل معلومات کا تبادلہ بھی ضروری ہے تاکہ کوئی غلط فہمی جنم نہ لے سکے نیز دہشت گردی میں ملوث افغان باشندوں کے بارے میں بھی آگاہ کیاجائے تاکہ دونوں ممالک کے درمیان موجود کشیدگی جیسے تعلقات بہتری کی جانب جاسکیں جو اس خطے کیلئے بھی انتہائی ضروری ہے کیونکہ دہشت گردی نے دونوں ممالک کو شدید جانی ومالی نقصان پہنچایاہے اور ترقی کی آڑ میں یہی دہشت گرد ہی رکاوٹ ہیں جن کا قلع قمع کرنا دونوں ممالک کے مفاد میں ہے۔