|

وقتِ اشاعت :   August 31 – 2016

کوئٹہ: سیاسی ودینی جماعتوں کے رہنماو ں نے کہا ہے کہ سانحہ8اگست نے پورے ملک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے یہ سانحہ صرف بلوچستان کا نہیں بلکہ پورے ملک کا ہے جس میں ہمارے تعلیم یافتہ طبقے کو ہم سے چھینا گیا حکمران قیا م امن کو یقینی بنانے کیلئے حقیقی اقدامات کریں داخلہ اور خارجہ پالیسی کی تبدیلی اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جائے یہ بات مقررین نے منگل کے روز جماعت اسلامی کے زیر اہتمام کوئٹہ پریس کلب میں ’’امن جرگہ‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ میں یہاں آنے سے قبل سوچ رہا تھا کہ آج کا دن کس کے نام کروں بلاشبہ ہم آج کے اس دن کوشہید وکلاء کے نام کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ میں دورہ بلوچستان میں شہداء کے گھروں میں گیا ہوں ہر گھر پر ایک قیامت گزری ہے ڈاکٹر عبدالمالک کاسی حوصلے کے پہاڑ ہیں انہوں نے مجھے بتایا کہ صرف انکے خاندان میں 10بچیاں بیوہ ہوگئی ہیں بلوچستان جہاں پہلے ہی سہولیات کا فقدان اور غربت کے باعث حصول علم بہت مشکل ہے ایسے میں والدین نے اپنے گھر کی چیزیں بیج کر اپنے بچوں کوپڑھایا اوراس حادثے میں اس ملک کے جینس جنہوں نے مستقبل میں ملک کی قیادت کرنا تھی جوبلوچستان کا اثاثہ تھے اس سے بلوچستان کو محروم کردیا گیا ہم جتنی باتیں کر لیں جتنا رو لیں وہ واپس نہیں آئیں گے ہر آنکھ اشکبار اورہر چہرے پرغم ہے حکمرانوں کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ یہاں پر ایک پراسرارخاموشی ہے جو کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ لگ رہا ہے حکمران کسی سانحہ کا انتظار کرنے کی بجائے اقدامات شروع کریں اس عظیم سانحہ کے بعد جب مودی نے ایک بیان دیا تو پورے بلوچستان نے اپنا غم ایک طرف رکھ کر جلسے اورجلوس کرکے مودی کی مذمت کی جب لاشیں ایک طرف رکھی ہوں تو ایسے میں یہ ممکن نہیں تھا لیکن بلوچستان کے عوام نے اپنے جذبے کا اظہارکردیا ہے کہ وہ ملک کے دوسرے لوگوں سے زیادہ محب وطن ہیں میں بلوچستان کے عوام کی جانب سے اسلا م آباد کو ایک واضح پیغام دینا چاہتا ہوں کہ اسلا م آباد کے حکمران یہ واضح کرکے بتائیں کہ وہ عوام کا تحفظ کرسکتے ہیں یا نہیں اب بھی حکمران انتظار کرتے رہے تو ایک حماقت ہوگی اب ڈنڈے کے زور پر ایک صوبے کو کنٹرول نہیں کیا جاسکتا بلوچستان مختلف قبائل اور قوموں کا صوبہ ہے اور بلوچستان کے جرگے نے سب سے پہلے پاکستان کا ساتھ دیا بلوچستان کے عوام کو کوئی غداری کا طعنہ نہیں دے سکتا میں کہتا ہوں کہ اگر حقوق مانگنا غداری ہے تو پھر شاید حکمرانوں کو پاکستان میں کوئی وفادار نہیں ملے گا بلوچستان کا مسئلہ اہم ہے وسائل کی منصفانہ تقسیم کے بغیر کچھ ٹھیک نہیں ہوگا سانحہ 8اگست کے بعد مجھے یقین تھا کہ وزیراعظم نواز شریف کوئٹہ آکر یہاں ملک کی تمام سیاسی اور عسکری قیادت کو جمع کریں گے تمام اسٹیک ہولڈر کوبلائیں گے اور کوئی اہم فیصلہ کریں گے جس طرح اے پی ایس پشاور کے بعد کیا تھا مگر مجھے افسوس ہے کہ سانحہ کے 22دن بعد بھی حکمرانوں کو یہ توفیق نہیں ہوئی اب بھی وقت ہے کہ حکمران بلوچستان کے عوام کے زخموں پر مرہم رکھیں غیر جمہوری اقدامات سے ماضی میں سانحات ہوچکے ہیں اورمزید ہوسکتے ہیں حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئے مشاورت سے پالیسی بنائی جائے وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جائے اس کے بغیر خوشحال پاکستان ممکن نہیں ۔ سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ شہید ہونے والے بہت سے وکلاء میرے دوست اور کچھ رشتہ دار بھی تھے اس سانحہ نے ہم سب کو ہلاکر رکھ دیا ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سانحہ کی وجہ کیا ہے چاہے مذہبی انتہا پسندی ہو یا مزاحمت انکی سب کی وجہ غیر جمہوری قوتیں ہیں جنرل ضیاء الحق نے اس سلسلے کا آغازکرتے ہوئے ہمیں ایک ایسی جنگ میں جھونک دیا جس کا کوئی اختتام نہیں ہمارے قائدین کہتے رہے کہ یہ حاکم کی لڑائی ہے اس میں نہ کودیں لیکن ایک آمر کی پالیسیوں نے پورے ملک کو کلاشنکوف اورڈرگ میں پھنسا دیا ہمسایوں سے تعلقات خراب کئے گئے اب بھی خارجہ پالیسی تبدیل کی جائے ورنہ کچھ ٹھیک نہیں ہوگا بلوچستان میں مزاحمت بھی ایک ڈکٹیٹر کے غلط فیصلوں ،آپریشن اورنواب اکبر بگٹی کی شہادت کے بعد شروع ہوئی اس مسئلے کا حل صرف مذاکرات ہیں ہم نے اپنے دور میں مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا تھا اور خان آف قلات سمیت دیگر بلوچ قائدین سے ملاقاتیں کی تھیں اس سلسلے کو جاری رہنا چاہئے ۔انہوں نے کہا کہ یہاں پرتمام ارکان اسمبلی پر تنقید کی گئی جو سب کا حق ہے مگر سب کو ایک لائن میں نہ کھڑا کیا جائے ہم نے جان ہتھیلی پر رکھ کر انتخابات میں حصہ لیا ہمیں عوام نے منتخب کیا ہم کسی کے کندھوں پرنہیں آئے ہیں ۔صوبائی وزیر تعلیم عبدالرحیم زیارت وال نے کہا کہ سانحہ کوئٹہ کے درد کو پورے ملک نے محسوس کیا اور اب بھی پورا ملک ایک درد اورکرب سے دوچار ہے جس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا ہمارے صوبے میں امن وامان کی صورتحال کوملک کے حالات کو مد نظررکھ کر بات کرنا ہوگی تو یہ معقول بات ہوگی اور مسائل ایڈریس ہونگے تو بہتری ہوگی ہم نے جب عام انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھاتو اسکی بھی ایک بنیاد تھی اور جب عدلیہ پر حملہ ہوا تو تمام سیاسی جماعتیں میدان میں تھیں آمریت کے خاتمے اور جمہوریت کیلئے تمام جماعتوں نے قربانیاں دی ہیں اس کے باوجود مجھ سمیت کوئی اپنے آپ کو کسی بات سے مبرا قرارنہیں دے سکتا بلکہ تمام مکاتب فکر کو اپنی ذمہ داریاں انجام دینا ہونگی مجھے افسوس ہے کہ یہاں پر سیاسی جماعتوں کے بارے میں بعض باتیں کی گئیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ 12مئی کوکراچی میں سیاسی جماعتیں ہی سڑکوں پر باہرنکلی تھیں اور سیاسی جماعتوں نے قربانیاں دیں عدلیہ پر حملے کے بعد سب سے پہلے ہم نے کوئٹہ میں جلسہ کیا جس کی صدارت محمود خان اچکزئی نے کی حکومت شہید وکلاء کیلئے جوممکن ہے وہ کر رہی ہے اور ہم نے ایسے واقعات کو روکنے کیلئے اقدامات کرنے ہونگے ۔ انہوں نے کہا کہ اب سیاسی قیادت بیٹھ کر یہ فیصلہ کرے کہ ملک کو کیسے امن دیا جاسکتا ہے۔ ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے چیئرمین عبدالخالق ہزارہ نے کہا کہ 8اگست آگاہی ،سوچ ،تہذیب اورانسانیت پر حملہ تھا عدل وانصاف پر مبنی سوچ کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہم اس درد کو بڑی اچھی طرح سے سمجھ سکتے ہیں کیونکہ ہم نے خود لاشیں اٹھائی ہیں ہم اس اذیت ،سفاک بربریت اور دہشت گردی کا شکار رہ چکے ہیں اس سانحہ میں ہم اپنے دوستوں سے محروم ہوئے ہیں اس سانحہ میں تعلیم یافتہ طبقے کو قتل کیا گیا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں اس سے پہلے بھی کئی ایک واقعات ہوئے کہ جن میں پہلے ایک کارروائی کے بعد دوسری بڑی کارروائی کی گئی حکمران بتائیں کہ انہوں نے ایسے واقعات کو روکنے کیلئے کیا کیا حکمرانوں کو ملک کی داخلہ اورخارجہ پالیسیوں کو تبدیل کرنا ہوگا کالعدم تنظیمیں سب سے زیادہ مراعات اور مزے میں رہتی ہیں ملک میں فرقہ وارانہ فسادات اورتصادم پھیلانے والے محب وطن قرار پاتے ہیں معاشرے کیلئے ناسور اپنے آپ کو ملک کا وفادار سمجھتے ہیں نیشنل ایکشن پلان کے بعد ہم نے سکھ کا سانس لیا تھا کہ اب دہشت گردی کا خاتمہ کردیا جائے گا مگر افسوس ایسا کچھ نہیں ہواکوئٹہ کا ہر شہری اسوقت خوف کا شکار ہے۔بلوچستان ہائیکورٹ بارایسوسی ایشن کے صدر عبدالغنی خلجی ایڈووکیٹ نے کہا کہ سانحہ 8اگست صوبے یا ملک کا نہیں بلکہ اپنی نوعیت کے حوالے سے دنیا کا ایک بہت بڑا سانحہ ہے پوری دنیا میں کہیں ایسے وکلاء کو نشانہ نہیں بنایا جاتا وکلاء جو معاشرے کے ہر فرد کیلئے انصاف کی جنگ لڑتے ہیں سب کی وکالت کرتے ہیں انہیں نشانہ بنانا ناقابل فراموش سانحہ ہے حکومت امن قائم کرنے میں مکمل ناکام ہوچکی ہے جس کا ثبوت آج کاجرگہ بھی ہے جو کام حکومت کو کرناچاہئے وہ نہیں کرسکی اورجو حکمران آئین پر عمل نہیں کرسکتے انہیں حکمرانی کا بھی کوئی حق نہیں ہوتا سانحہ کے 22دن بعد بھی اب تک وکلاء کو یہ نہیں بتایا گیا کہ سانحہ کی تفتیش کون کررہا ہے تفتیش کہاں تک پہنچی ہے کون اسکا ذمہ دار تھا حملہ آور کے سہولت کارکون تھے ہم نے جمہوریت کیلئے بڑی قربانیاں دی ہیں ۔بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی سینئر نائب صدر ملک عبدالولی کاکڑنے کہا کہ سانحہ 8اگست نے پورے صوبے کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے سانحہ کے 20دن بعد بھی حکمران عوام کو کچھ بتانے سے قاصر ہیں کبھی کہا جاتا ہے کہ اس میں ’’را‘‘ ملوث ہے تو کبھی کہا جاتا ہے کہ یہ ترقی دشمن عناصر کا اقدام ہے مگر ابتک اس واقعہ کی ذمہ داری حکومتی سطح پر کسی نے قبول نہیں کی اور نہ ہی کسی کے استعفیٰ دینے کا کوئی امکان ہے افسوسناک بات تو یہ ہے کہ حکومت خود کہہ رہی ہے کہ یہ سانحہ ہے اور اس کے قاتل گرفتار ہونے چاہئے ہم پریشان ہیں کہ جس کی ذمہ داری ہے کہ قاتلوں کو پکڑے وہ بھی صرف مطالبات کررہی ہے مختلف اسٹیجوں پر حکومت میں شامل لوگوں کی جانب سے قاتلوں کو پکڑنے کے مطالبے کے بعد حکومت بتائے کہ وہ کیا کر رہی ہے اگر حکومت کچھ نہیں کرسکتی تو وہ آئے ریاست سے کہے کہ ذمہ داروں کو پکڑا جائے کیونکہ یہ اسکی ذمہ داری ہے حکمران بارہا اپنی بے بسی اور بے اختیار ہونے کااعتراف کرچکے ہیں اگر بات اسکولوں ،سڑکوں ،ہسپتالوں ،ریلوے لائن کی ہے تو وہ تمام چیزیں ہمیں انگریزبھی دے رہا تھا بلکہ موجودہ حکمرانوں سے زیادہ بہتر انداز میں یہ چیزیں ہمیں مل رہی تھیں پھر ہم نے اسکے خلاف یہ جنگ کیوں لڑی اگر آج وکلاء کے قاتلوں کو نہ پکڑا گیا تو شاید کل کوئی نہ بچے۔عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر انجینئر زمرک خان اچکزئی نے کہا کہ سانحہ8اگست انتہائی دلخراش سانحات میں سے ایک ہے یہاں پر زندگی کے کسی شعبے سے تعلق رکھنے والے محفوظ نہیں ہماری جماعت نے ایک ہزار سے زیادہ شہداء دیئے ہیں جب ہم حقوق کی بات کرتے ہیں تو غداری کا الزام لگ جاتا ہے سچ بولنے والوں کی زبان بندی کی جاتی ہے یہاں صرف اسٹیبلشمنٹ کی بات چلتی ہے ہمیں تمام وابسگتیوں سے بالاتر ہوکر امن کیلئے سوچنا ہوگاسب سے بڑی ذمہ داری حکمرانوں کی بنتی ہے حکومت میں شامل جماعتوں اور وزراء کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عوام کو تحفظ دیں ۔ممتاز وکلاء رہنما امان اللہ کنرانی نے کہا کہ ہم غمزدہ ہیں وکلاء کی شہادت کو آج 20دن سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے حکومت اور متعلقہ حکام کی جانب سے بڑ ی باتیں ہوئی مگر حقیقت یہ ہے کہ یہاں کوئی محفوظ نہیں یہ سانحہ کوئٹہ نہیں بلکہ پورے بلوچستان کا غم ہے اور بلوچستان ملک کا نصف ہے اور یہ پورے ملک کا غم ہونا چاہئے ہم نے 100لاشیں اٹھائی ہیں 20کروڑ عوام کواس پر غم ہونا چاہئے بلوچستان کے لوگوں نے تما م نا انصافیوں کے باوجود جمہوری طریقے سے آواز بلند کرتے رہے قیام پاکستان کے وقت بلوچستان نے الحاق کا فیصلہ کیا جبکہ دوسرے لوگ تو انگریز کی وفاداری کر رہے تھے اتنے بڑے حادثے کے بعد آج بھی ہمارے ہاں کچھ لوگ لڑنے مرنے کی باتیں کر رہے ہیں جہاد کی بات ہورہی ہے وہ بتائیں کہ کیا وہ ریاست کے خلاف جہاد کرنا چاہتے ہیں ماضی میں حکمران یہ کہتے رہے ہیں کہ 70سردار انکے ساتھ ہیں اور 3سردار مسئلے پیدا کر رہے ہیں یہ تاریخ ہے کہ تین سرداروں کے دور میں یہاں پر امن اور ترقی کا دور رہا سانحہ کوئٹہ ملک کی سنجیدہ سوچ کو قتل کرنے کی کوشش ہے جو طویل عرصے سے جاری ہے یہ 1935ء کے سانحہ کے بعد بڑا سانحہ ہے ہمیں اس سانحہ کے ذمہ داروں کا تعین کرنا ہوگا کہ کون اسکا ذمہ دار ہے کیا کوئی سوچ اور نظریہ اسکا ذمہ دار ہے ۔انہوں نے کہاکہ حکمرانوں کی نظر میں 20کروڑ عوام کی کوئی حیثیت نہیں وہ آبادی کو بوجھ سمجھ کرایک فلسفے کے تحت لوگوں کو کم کررہے ہیں اتنے بڑے حادثے کے بعد وزیرداخلہ اور وزیرصحت کا نہ پہنچنا سوالیہ نشان ہے جمہوریت کے نام پر حکمران اپنے پیٹ کے لئے عوام کو قربان کررہے ہیں۔جمعیت علماء اسلام کے صوبائی جنرل سیکرٹری ملک سکندرخان ایڈووکیٹ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امن قائم کرنا اور عوام کو تحفظ فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے ہر ادارے کواپنا کردار ادا کرنا چاہئے ہمارا تعلق کسی بھی شعبے سے ہو ہمیں کام کرنا ہوگا اگر سیاسی طور پر مضبوط ہوئے تو ہمارا خون اس طرح نہیں بہے گاہم پر ظلم وجبر بھی نہیں ہوگا مگر ہم سیاسی عمل میں بہت کمزور ہوگئے ہیں 1998ء تک ایک سیاسی عمل تھا اگر یہ سلسلہ جاری رہتا تو ہماری جمہوریت اور ملک دونوں مضبوط ہوتے اب بھی پوائنٹ اسکور کرنے والے سیاستدان عوام کی خدمت نہیں کرسکتے بدقسمتی سے یہ ملک جواسلام کے نام پر حاصل کیا گیا مگر پہلے دن ہی سیکولر بنانے کی کوشش کی گئی ہمیں اپنی داخلہ اور خارجہ پالیسیاںآزادانہ طورپر بنانا اورتمام ممالک سے تعلقات بہتر بنانے ہونگے۔ جرگہ سے سردار اشرف کاکڑ،خدائے دوست کاکڑ،سلطان محمدکاکڑ،امین اللہ ایڈووکیٹ،مولانا انوارالحق حقانی ،سید سعد اللہ شاہ ،ادریس فاروقی،سید ہاشم موسوی ،مفتی جان محمد قاسمی ،سید تاج آغا،امر الدین آغا،ڈاکٹر شہلا سمیع کاکڑودیگر نے بھی خطاب کیا۔