|

وقتِ اشاعت :   September 7 – 2016

کراچی: ریحان رند زندگی کی بازی ہارگیا‘بلوچستان کے ضلع خضدار کے علاقے گزگی سے تعلق رکھنے والا23 سالہ طالب علم ریحان رند آغا خان ہسپتال کراچی میں کئی دنوں سے زیر علاج تھاجو کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلاتھا‘حکومت بلوچستان سمیت بلوچستان کے متعدد پارلیمنٹرین قبائلی معتبرین سے اپیل کے باوجود انہیں کوئی مالی مدد نہیں کی گئی میری اطلاع کے مطابق سوائے بی این پی مینگل کے سربراہ سردار اختر جان مینگل جنہوں نے پانچ لاکھ روپے ریحان رند کے علاج کیلئے دیئے‘ ریحان رندکے اہلخانہ ،دوست واحباب تمام لوگوں کی بھرپورکوششیں جاری تھیں کہ ریحان رند کا علاج بہتر طریقے سے ہوسکے جس کیلئے طالب علموں اور اساتذہ سمیت دوستوں کی بڑی تعداد خون عطیہ کرنے سمیت مالی امداد کیلئے سرگرم تھے اور بلوچستان کے مختلف پریس کلبوں کے سامنے چندہ مہم بھی کیا‘rehan بلوچستان کیترقی وخوشحالی اور آنے والی نسل کیلئے ایک نئے بلوچستان کے جو دعوے کیے جارہے ہیں ریحان رند کی موت نے ان دعوؤں کی نفی کردی‘ریحان رند کے اہلخانہ نے چند وزراء سے ملاقاتیں بھی کیں مگر اُن کی طرف سے یہی جواب ملا کہ اگر بلوچستان میں ریحان رند زیر علاج ہوتے تو ہم مالی مدد کرتے‘ اب میرا سوال یہ ہے کہ بلوچستان کی ترقی پورے پاکستان کی ترقی سے منسوب پھر کیونکر ہے؟ وزراء جب اسمبلی فلور میں کھڑے ہوکر یہ کہہ کر نہیں تھکتے کہ بلوچستان کی ترقی سے ملک میں خوشحالی آئے گی تو کراچی میں زیر علاج بلوچستان کے فرزند کیلئے روپے کی شرط اس بنیاد پر کہ وہ بلوچستان کے کسی ہسپتال میں زیر علاج نہیں جس میں کوئی منطق اور لاجک نہیں صرف لالی پاپ دینا تھا جو دیا گیا‘ افسوس کی بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر بھرپور مہم بھی چلائی گئی مگر کسی نے توجہ نہیں دی البتہ سب کی توجہ اس وقت ریحان رند کی سرزمین پر شروع ہونے والے منصوبے سی پیک پر لگی ہوئی ہیں اگر سی پیک پرکوئی شوشہ چھوڑا جائے تو اس کا فوری ردعمل سامنے آتا ہے مگر یہ ایک بزگ ولاچار طالب علم کی فریاد تھی اس لیے کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی ‘بلوچستان میں ہی نہ جانے کتنی عورتیں زچگی کے دوران اپنی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں‘ کتنے بچے پولیو ‘کانگوسمیت دیگر امراض میں مبتلاہوجاتے ہیں‘ دوسری جانب حکومت بلوچستان نے محکمہ صحت پر ایک خاصابجٹ مختص کیاہے جو بلوچستان کے غریب عوام کیلئے بہترین سہولیات مہیاکرسکے مگر یہ پیسہ کہاں خرچ ہورہا ہے کوئی پوچھنے والانہیں‘ کیا اب بھی یہ سوالات نہ اٹھائے جائیں کہ بلوچستان پر46ارب روپے کی سرمایہ کاری کس کیلئے ہورہی ہے ‘69 سالوں کے دوران بلوچستان کے عوام جس طرح زندگی بسر کررہے تھے اس میں کوئی بہتری آج بھی نہیں آئی ہے اگر آنے والے دنوں میں بھی آئے گی تو وہ صرف اسی طبقے کے حصے میں جو ماضی سے اس سرزمین کے وسائل سے بھرپور استعفادہ حاصل کررہی ہے‘افسوس مگر دعوے اب بھی بڑے کیے جارہے ہیں جیسے بلوچستان میں شہد اور دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں‘ یقین تب آتا جب23سالہ طالبعلم ریحان رند جو نظروں سے اوجھل بھی نہ تھااس کے علاج کیلئے بلوچستان یاوفاقی حکومت اپنا کردار ادا کرتی جس کے علاج کیلئے محض 35 لاکھ روپے درکار تھے ‘ ایسے لگتا ہے کہ بلوچستان کے عوام کیلئے صرف خوش کن نعرے ہی رہ گئے ہیں تاکہ وہ خوابوں کی دنیامیں بہترین مستقبل دیکھیں‘ریحان رند کی زندگی کا چراغ بجھانے کے ذمہ دار وہ سب ہیں جو بلوچستان کواپنی بقاء سمجھتے ہیں چاہے وہ حکومت یا اپوزیشن میں ہوںیا وہ چیمپیئن جو سوشل میڈیا پر ہر وقت بھڑک بازی کرتے دکھائی دیتے ہیں جنہوں نے ریحان رند کی زندگی کوبچانے کیلئے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔البتہ خضدار کے طالبعلم اور وکیل عمران بلوچ نے ریحان رند کیلئے بھرپور مہم چلائی اور تمام لوگوں سے رابطہ برقرار رکھا تاکہ کسی جگہ سے کوئی امید کی کرن مل سکے اور ریحان رند کے علاج کا کوئی ذریعہ ملے خیر عمران بلوچ کی کوششیں قابل تعریف ہیں جنہوں نے اپنے بس میں رہ کر جتنا ہوسکا کیا مگر بلوچستان کے دعویداراس طالبعلم کی موت کا جوابدہ ہیں۔’’ بدقسمت ہیں وہ قومیں جو اپنے معماروں کی قدرواہمیت نہیں جانتے‘‘ صرف وسائل ہی نہیں نوجوان بھی تمہارے سرمایہ ہیں‘‘۔خدارا اپنے نوجوانوں کی قدر کرو جو آنے والے وقت میں تمہارے بازو ہیں وگرنہ مایوسی نوجوان نسل کو تم سے دور لے جائے گی۔اب یہ سوال بھی ضرور اٹھائے جائے گا کہ ایسی بیماریوں سے روزانہ لوگ موت کے منہ چلے جاتے ہیں یہ کوئی انوکھی بات نہیں جس پر اتنا کچھ کہااور لکھاجائے‘ جب اپنے ہی گھرکا چراغ اسی طرح بے بس ہوکر بجھنے لگے تب دل سے پوچھنا کہ انسانی جان کی قیمت کس قدر معنی رکھتی ہے اور جب جدا ہوجائے توکتنا تکلیف اور صدمہ پہنچتاہے جو لمحہ بہ لمحہ یاد آتاہے۔