|

وقتِ اشاعت :   October 25 – 2016

وزیراعظم نے کوئٹہ میں شہری سہولیات کو بہتر بنانے کے لئے پانچ ارب کے گرانٹ کا اعلان کیا تھا، اس کے بعد ہر گروہ اپنے لئے زیادہ سے زیادہ رقم بٹورنے کے چکر میں ہے ۔ اس سے قبل بعض اراکین صوبائی اسمبلی نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ اس رقم کو تمام 65ایم پی اے حضرات میں برابر برابر تقسیم کی جائے ۔ وزیراعظم نے یہ خصوصی گرانٹ صرف اور صرف شہری سہولیات کے لئے دی ہے تاکہ شہر کے عوام کو جدید اور ضروری خدمات فراہم کی جائیں ۔ لیکن بعض وزراء اور ایم پی اے حضرات اس رقم کو اپنے اپنے پسندیدہ پروجیکٹس پر خرچ کرنا چاہتے ہیں حالانکہ پروجیکٹس کی سرمایہ کاری کے لئے صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے سالانہ ترقیاتی پروگرام موجود ہیں اگر بڑے پروجیکٹس ہیں تو ان کو وفاقی حکومت کی طرف روانہ کریں اگر چھوٹے پروجیکٹس ہیں تو صوبائی حکومت ان کو اپنے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں شامل کرے گی البتہ جہاں تک وزیراعظم کے خصوصی گرانٹ کا تعلق ہے اس کا مقصد شہری اور میونسپل سہولیات میں بہتری لانا ہے۔ کوئٹہ شہرکو گزشتہ کئی دہائیوں سے نظر انداز کیا گیا ہے ، اس کا کوئی والی وارث نہیں رہا ۔ یہاں تک کہ ایک سابق وزیراعلیٰ نے سریاب کے علاقے میں شہری سہولیات کو بہتر بنانے کے اپنی ہی حکومت سے فنڈ حاصل نہ کر سکے اوردوسرے ذرائع سے ان کو چوری چھپے فنڈز فراہم کرنے پڑے۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ سرکاری فنڈ پر مافیا کا قبضہ ہے اور وزیراعلیٰ بھی ان کے سامنے بے بس نظر آئے ۔ اس لیے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم کے خصوصی گرانٹ کو کسی بھی اسکیم یا پروجیکٹ پر خرچ نہ کیاجائے بلکہ اس کو صرف اور صرف عوامی صحت عامہ کی بہتری پر خرچ کیاجائے۔ جب سے پاکستان بنا ہے سریاب کی پندرہ لاکھ سے زائد آبادی گندے پانی کے نکاسی کے نظام سے آج تک محروم ہے ۔ گندے پانی کی نکاسی کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں میں بیماریاں عام ہیں گٹر ابل رہے ہیں میونسپل حکام اس پر توجہ نہیں دیتے کہ لوگ کس حال میں ہیں ۔ حکومت موجود ہے اس کے لیے الگ رقم مختص کرے ۔ یہ گرانٹ صرف اور صرف بنیادی صحت کے مسائل کو حل کرنے کیلئے خرچ کرے ۔ جہاں تک ریل اور کوئٹہ کے ٹرانزٹ ٹرین کا تعلق ہے یہ پاکستان ریلوے کی ذمہ داری ہے یہاں ریل کی پٹڑی ’ ریلوے انجن اور بوگیاں موجود ہیں ۔ سگنل کا بھی نظام ابھی تک صحیح سلامت ہے اس کے لیے ریلوے سے کہا جائے کہ وہ ایک اور ٹریک بچھائے جو کوئٹہ کے جنوب کو شمال سے ملائے، اس میں خصوصی اخراجات کی ضرورت نہیں ہے ریلوے ایک سال میں پنجاب سیکشن پر 35ارب روپے خرچ کر سکتی ہے تو ایک ارب روپے میں ٹرانزٹ ٹرین کوئٹہ میں پاکستان ریلوے چلا سکتی ہے اس کے لئے نہ سی پیک کی ضرورت ہے نہ چینی امدادکی’ پاکستان ریلوے اس کو اپنے وسائل سے پورا کر سکتا ہے ۔ ایکسپریس وے کے لئے این ایچ اے سے رجوع کیاجائے کئی سو ارب روپے کا مالک ادارہ کوئٹہ ایکسپریس وے کی تعمیر چار ارب سے شروع کر سکتا ہے بلکہ اس کو مکمل کر سکتا ہے اس لیے وزیراعظم کے خصوصی گرانٹ کو صرف اور صرف میونسپل سہولیات اور خصوصاً پسماندہ اور نظرا نداز علاقوں میں گندے پانی کی نکاسی ‘ کوڑا کرکٹ کو ٹھکانے لگانے ‘ کوئٹہ شہر کے استعمال شدہ پانی کو دوبارہ قابل استعمال بنانے اور اس سے معیاری کھیتی باڑی اور معیاری سبزیوں اور پھل کا حصول ’ صفائی اور گاڑیاں دھونے کے لئے استعمال کیا جائے۔ اسکے ساتھ ہی اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ کوئٹہ کے کسی بھی علاقے میں ابلتے گٹر نظر نہ آئیں اگر کارپوریشن کو گاڑیوں کی ضرورت ہے تو وہ وزیراعظم کے خصوصی گرانٹ سے رقم حاصل کر سکتی ہے اور یہ گاڑیاں خرید سکتی ہے ۔ بہر حال اس رقم سے کسی قسم کا کنسٹرکشن کا کاروبار ‘ کمیشن کی وصولی اور ادائیگی قطعاً نہیں ہونی چائیے ۔ کمیشن لینے اور دینے کے لئے بہت سے سرکاری محکمے موجود ہیں اور وہی کافی ہیں ۔