|

وقتِ اشاعت :   December 7 – 2016

کوئٹہ : بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی بیان میں کہا گیا ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین کی موجودگی میں مردم شماری کے ذمہ دار صوبائی اور مرکزی حکومت میں شامل تمام جماعتیں ہیں جو اقتدار میں ہونے کے باوجود چھپ ساد رکھی ہیں ساڑھے پانچ لاکھ افغان خاندان مردم شماری میں شامل کئے گئے تو تاریخ ان جماعتوں کو معاف نہیں کرے گی 60فیصد بلوچوں کو شناختی کارڈز کے اجراء اور جو مشرف آپریشن کی وجہ سے بے گھر بلوچوں کی دوبارہ آباد کاری تک مردم شماری نہ کرائی جائے ترقی و مردم شماری کے مخالف نہیں لیکن بلوچوں کا خدشہ حقیقی اور اصولی ہے جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا مہاجرین کی موجودگی میں مردم شماری غیر قانونی ہوں گے اور 2013ء کے انتخابات کی طرح جعلی تصور کئے جائیں گے بیان میں کہا گیا ہے کہ حکمران بلوچوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کے برعکس اقدامات کر رہے ہیں چالیس لاکھ افغان مہاجرین کو مردم شماری میں حصہ بنانے کسی بھی صورت قبول نہیں کریں گے یہ بلوچستانی عوام کے حق پر ڈاکہ ہے اقوام متحدہ کے قوانین ، بین الاقوامی مسلمہ اصول اور ملکی آئین کے تحت کوئی یہ جواز نہیں پیش کر سکتا کہ افغان مہاجرین کو ملک کا شہری تصور کیا جائے مہاجرین کے میعاد میں توسیع کی بجائے انہیں باعزت طریقے سے واپس بھیجا جائے بلوچوں کی دوبارہ اپنے علاقوں میں آبادکاری اور 60فیصد بلوچوں کو شناختی کارڈز جاری کرنے کے بعد مردم شماری قابل قبول ہوں گے بلوچ باشعور قوم ہونے کے ناطے یہ حق رکھتی ہے کہ اپنے حقوق کے حصول کیلئے قومی و جمہوری انداز میں جدوجہد کرتی رہے اور قومی مفادات اجتماعی مفادات کو ملحوظ خاطر رکھ افغان مہاجرین اور مردم شماری کے حوالے سے اپنے خدشات و تحفظات پر آواز بلند کرتی رہے گی افغان مہاجرین جو 1979ء افغان ثور انقلاب کے بعد بلوچستان ، خیبرپختونخواء اور ملک کے دیگر علاقوں میں لاکھوں خاندان پاکستان آئے اس دور میں جنرل ضیاء الحق نے انہیں کیمپوں تک محدود کرنے کی بجائے مسلسل آزادی دے رکھی تھی کہیں بھی ملک میں رہیں اور آزادانہ طریقے سے نقل و حرکت کریں ان پر کوئی پابندی نہیں تھی اسی وجہ سے انہوں نے کاروبار ، زمینوں کی خرید و فروخت بالخصوص بلوچستان کی معاشی منڈی پر قابض ہوئے اور آج تک ہماری معیشت پر بوجھ ہیں آج جو مسائل حکمرانوں اور ریاست کو درپیش ہیں اس کی تمام تر ذمہ داری جنرل ضیاء الحق کے دور حکمرانی پر جاتی ہے جنہوں نے مہاجرین کے بین الاقوامی قوانین کے برخلاف اقدامات کئے اور انہیں کیمپوں تک محدود کرنے کی بجائے ان کی نقل و حرکت پر پابندی نہ لگائی جس سے عوام اور ارباب و اختیار پریشانی کا سامنا کر رہے ہیں ملک کے آئین ، بین الاقوامی مسلمہ اصولوں یا شہری قوانین کو بھی ملحوظ خاطر رکھا جائے تو کسی طور پر یہ جواز نہیں دیا جاسکتا کہ اتنی بڑی تعداد میں غیر ملکی مہاجرین کو شناختی کارڈز اور دیگر دستاویزات جاری کئے جائیں اور انہیں بلوچستان میں رہنے دیا جائے اگر ہم مسلمان کی حیثیت سے سوچیں تو اس وقت سعودی عرب مسلمانوں کا مرکز کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا لیکن وہاں بھی مہاجرین تو درکنار کسی کو آج تک شہریت نہیں دی گئی اسی طرح دیگر مسلم ممالک بھی ہیں بلوچوں نے 35سال مہمان نوازی کا رواداری کے ساتھ حق ادا کیا جنرل مشرف کی آمرانہ اور غلط پالیسیوں کی وجہ سے لاکھوں کی تعداد میں بلوچ خاندانوں اپنے گھر سے ہجرت کر چکے ہیں ان کی دوبارہ آبادکاری اور 60فیصد بلوچوں کو شناختی کارڈز جاری کئے بغیر مردم شماری کرانا بلوچوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے احساس محرومی میں اضافہ ہے ہمیں اقلیت میں تبدیل کرنے کی گہری سازش گردانا جائے تو بے جا نہ ہو گانواب اکبر بگٹی کی شہادت کے بعد بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالی کی گئی جس کی وجہ سے بلوچستان پہلے ہی سے ناانصافیوں اور محرومیوں کا شکار ہیں اب جبکہ مردم شماری متوقع ہے حالانکہ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ 2011ء میں خانہ شماری کے موقع پر سیکرٹری شماریات نے بے ضابطگیوں کا انکشاف کیا تھا کہ افغان مہاجرین کیوجہ سے بلوچستان کے پشتون علاقوں کی آبادی میں 4سے 5سو فیصد اضافہ ہو چکا ہے جس کی وجہ سے خانہ شماری کو مسترد کر دیا تھا اب افغان مہاجرین کے تمام شناختی کارڈز کی منسوخی ، انتخابی فہرستوں سے ناموں کو نکالا جائے ان کی موجودگی میں مردم شماری ناقابل قبول ہے ۔