|

وقتِ اشاعت :   January 11 – 2017

بد قسمت ہیں وہ ممالک جو کسی نہ کسی وجہ سے جنگ کے شعلوں کی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔ یہ جنگ اپنی غلطی کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے یا کسی بد نیت طاقت کی طرف سے مسلط بھی کی جاسکتی ہے۔وجہ کوئی بھی ہو جنگ کا نتیجہ ہمیشہ مالی،جانی، معاشی اور انسانی تباہی کی صورت میں ہی سامنے آتا ہے۔ یہی حالت اسوقت افغانستان کی ہے جو بد قسمتی سے ایک طویل عرصے سے جنگ کے شعلوں میں جل رہا ہے اور بد قسمتی سے یہ جنگ افغانستان کی کسی اپنی غلطی کی وجہ سے نہیں بلکہ دو بڑی طاقتوں کی طرف سے مسلط کی گئی ہے۔ اب یہ ایک طویل جنگ کا روپ اختیار کر چکی ہے۔ویسے تو افغانستان ایک طویل عرصہ سے اندرونی بد امنی کا شکار تھا لیکن 1979میں روس نے با قاعدہ طور پر افغانستان پر چڑھائی کر دی اور اس بد قسمت ملک میں اپنی فوجیں داخل کر دیں۔افغان آزادی پسند لوگ ہیں انہوں نے روسی قبضے کیخلاف با قاعدہ جنگ آزادی شروع کی۔ امریکہ نے یہ موقع غنیمت سمجھا اور ویت نام کی شکست کا بدلہ لینے کی غرض سے افغان آزادی پسند گروپس کی مدد کی اور انہیں مضبوط کرنے کی غرض سے پاکستان کی مدد چاہی۔ایک تو پاکستان کو یہ خوف تھا کہ روس کا افغانستان میں داخلے کا اصل مقصد ساحل بلوچستان کے گرم پانیوں تک پہنچنا ہے جو روس کا ایک دیرینہ خواب تھا اور اس لئے روس کو افغانستان میں ہی روکنا ضروری تھا۔ دوسرا پاکستان کو مشرقی پاکستان میں روسی کردار کیخلاف بدلہ لینے کا موقع نظر آیا لہٰذا پاکستان با لواسطہ طور پر افغان جنگ میں کود گیا۔ امریکہ کی مدد سے مختلف جہادی گروپس تیار کر کے افغانستان بھیجنے شروع کردئیے۔ پاکستان کی کوششیں رنگ لائیں روس کو بالاخر شکست کھا کر افغانستان سے نکلنا پڑا جو کہ پاکستان کی ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔ خیال تھا کہ جنگ ختم ہو جائیگی مگر 2001میں امریکہ بلا واسطہ طور پر افغانستان پر حملہ آور ہو گیا اور وہ جنگ آج تک جاری ہے۔ روس کی طرح امریکہ بھی اس جنگ میں ناکام رہا ہے۔ امریکی جھنڈے تلے امریکہ کے مختلف اتحادی ممالک نے بھی اپنی اپنی افواج بھجوائیں اور اس مشترکہ کمان کو ’’ایساف‘‘ کا نام دیا گیا۔ اپنی تمامتر کو ششوں کے باوجود امریکہ کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔اس عر صہ میں امریکہ نے افغانستان کی اپنی فوج تیار کی اور بالاخر 2014کے آخر میں ذمہ داری افغان فوج کے حوالے کر کے ایساف کی افواج افغانستان سے نکال لی گئیں۔ اب وہاں پہ امریکہ کی محض نو ہزار فوج موجود ہے اور وہ بھی بطور ٹوکن۔ لڑائی میں کوئی خاص کردار ادا نہیں کرتی سوائے بمباری وغیرہ کے۔ایساف کی افواج کے جانے کے بعد سے امریکہ نے افغانستان جنگ میں کوئی واضح پالیسی نہیں اپنائی بلکہ تمامتر ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈال دیا جاتا ہے۔ اسوقت امریکی فورسز کی بجائے تمام علاقوں میں افغان فورسز لڑ رہی ہیں لیکن وہ طالبان فورسز کو روکنے میں ناکام ہیں۔ افغان حکومت کو اسوقت جنگ کے حوالے سے چار بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔افغانستان میں اسوقت چھوٹے بڑے کئی گروپس جنگ میں بر سر پیکار ہیں۔ ان میں سب سے بڑا اور طاقتور گروپ طالبان کا ہے جو 2014سے پہلے امریکہ اور اب افغان فوج کیخلاف لڑ رہے ہیں اور انکی جنگی کارکردگی امریکی اور افغان فورسز سے کہیں زیادہ بہتر ہیں۔طالبان کی جنگی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ افغانستان کے کل 400اضلاع میں سے 36اضلاع اسوقت طالبان کے قبضے میں ہیں اور 116مزید اضلاع پر طالبان کے قبضے کی افواہیں ہیں جہاں ابھی تک حالات واضح نہیں۔طالبان کو افغان فورسز پر واضح برتری حاصل ہے اسکی سب سے بڑی وجہ یہ ہے طالبان کا رویہ جارحانہ ہے۔ انہوں نے سردیوں میں بھی اپنا پریشر جاری رکھا ہے۔ کچھ علاقوں میں تو طالبان نے شاندار کامیابیاں حاصل کی ہیں جنہیں امریکی بمباری بھی شکست نہیں دے سکی۔ افغان حکومت کو دوسرا بڑا چیلنج داعش کی طرف سے ہے جسے یہاں ’’ اسلامک سٹیٹ آف خراسان‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ داعش اس علاقے میں دوسری بڑی طاقت ہے۔2015 تک داعش ایک منتشر قوت تھی لیکن 2016میں داعش نے مثالی اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے۔ افغان فورسز کے زمینی حملوں اور امریکی بمباری کا بھی دلیری سے مقابلہ کیا ہے۔ لشکر اسلام ،لشکر جھنگوی ،جماعت الا حرار اور جنداللہ کے ساتھ بھی اتحاد قائم کر لیا ہے جو ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ حال ہی میں طالبان سے بھی انڈر سٹنڈنگ ہو چکی ہے کہ ایک دوسرے پر حملے نہیں کرینگے اور نہ ہی ایک دوسرے کے مفادات کو زک پہنچائیں گے۔ان جماعتوں سے اتحاد اور طالبان کے ساتھ انڈر سٹنڈنگ سے داعش ایک مضبوط طاقت کی صورت میں سامنے آئی ہے اور یہ کابل، جلال آباد اور غور کے علاوہ پاکستانی بلوچستان میں بھی سرگرم ہے۔ بلوچستان میں تمام اہم حملوں کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے۔ایک اخباری اطلاع کیمطابق داعش کے روابط بھارتی ایجنسی’’ را‘‘ سے بھی قائم ہو چکے ہیں۔ افغان حکومت کیلئے تیسرا بڑا چیلنج مذہبی منافرت ہے۔ افغانستان میں اہل سنت جماعت اور اہل تشیع فرقوں کے لوگ اپنے اپنے عقیدے کے مطابق کٹر اور کسی حد تک انتہا پسند ہیں۔ دہشتگرد تنظیمیں تقریباً تمام کی تمام کا تعلق اہل سنت جماعت سے ہے۔ 2014 تک مذہبی برداشت قابو میں تھی لیکن افغانستان میں جیسے جیسے داعش اور لشکر جھنگوی تنظیمیں مضبوط ہوئیں مذہبی عدم برداشت میں اضافہ ہو گیا۔ افغانستان میں پاکستان کی طرح ہزارہ برادری کا تعلق اہل تشیع فرقے سے ہے۔ان لوگوں کے شام میں لڑنے والے اہل تشیع گروپس سے قریبی تعلقات ہیں۔ یہ لوگ انہیں سپورٹ کرتے ہیں۔ اسوقت بھی تقریباً 4ہزار افغان ہزارہ قبیلہ کے لوگ شام میں فاطمی بر گیڈ کی کمان میں لڑ رہے ہیں جس وجہ سے 2016میں یہ حملے کافی بڑھ گئے تھے اور یہ رفتار اب تک جاری ہے۔افغان حکومت ان مذہبی گروہوں کی انتہا پسندی کنٹرول کرنے میں تا حال بری طرح ناکام ہے۔حکومت کا چوتھا بڑا چیلنج افغان نیشنل آرمی بذاتِ خود ہے جو حالات پر قابو پانے میں ناکام ہے۔ ایک تو یہ آرمی پوری طرح تربیت یافتہ نہیں دوسرا جغرافیائی طور پر اپنی حیثیت سے کہیں زیادہ علاقے میں پھیلی ہے جسے کنٹرول کرنا اسکے بس میں ہی نہیں۔ دور دراز کی پوسٹوں پر اسلحہ اوراشن کی بھی تنگی ہے۔ سولجرز طالبان کے سخت حملوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔2016کے پہلے آٹھ ماہ میں افغان فوج کی تقریباً 6ہزار اموات ہوئیں اور 9 ہزار کے قریب لوگ زخمی ہوئے۔اموات اور زخمیوں کی یہ شرح کسی بھی لڑاکا فوج کیلئے بہت زیادہ ہے لہٰذ اب ا فغان فوج کے سولجرز طالبان سے مقابلہ کرنے کی بجائے یا تو ہتھیار پھینک کر اپنے آپ کو طالبان کے حوالے کر دیتے ہیں یا پھر پوسٹیں چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں۔ایک اخباری اطلاع کے مطابق فوج سے بھگوڑوں کی شرح 28فیصد سے33 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ معروضی حالات میں افغانستان میں قیام امن کے امکانات دور دور تک نظر نہیں آتے۔ پاکستان افغانستان کا مخلص دوست ہے اور افغانستان میں قیام امن کا تہہ دل سے خواہشمند بھی ہے لیکن افغانستان نے بھارت کے ایما پر پاکستان سے بھی خواہ مخواہ تعلقات کشیدہ کر لئے ہیں۔ افغانستان اپنے معاملات سے پاکستان کو باہر رکھنا چاہتا ہے جو کہ افغانستان کیلئے بذاتِ خود ایک نقصان دہ پالیسی ہے۔افغانستان نے پاکستان کے بغیر قطر میں طالبان کو قریب لانے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہوا۔افغانستان کو احساس ہونا چاہیے کہ قیام امن کیلئے دونوں ممالک کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔ باہمی تعاون کے بغیر قیام امن کا خواب بھی محض خواب ہی رہیگا۔