|

وقتِ اشاعت :   January 11 – 2017

گزشتہ روز گڈانی کے ساحل پر ایک اور پرانے جہاز میں آگ بھڑک اٹھی اور اس حادثہ میں 6افراد ہلاک اور کچھ لوگ زخمی ہوگئے۔ ان میں سے کئی ایک لاپتہ بتائے گئے ہیں ابھی تک ہلاک اور لاپتہ ہونے والے مزدوروں سے متعلق معلومات جمع کی جارہی ہیں۔ اس سے قبل اسی قسم کے ایک واقعہ میں پرانے جہاز کو توڑنے کے دوران 27سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ گڈانی میں پرانے جہاز توڑنے کی صنعت دہائیوں سے قائم ہے۔ وفاقی حکومت اس صنعت سے اربوں روپے کے ٹیکس وصول کرتی ہے اور بلوچستان حکومت کو سالانہ دس لاکھ روپے وصول ہوتے ہیں بلوچستان حکومت اور انتظامیہ کی عدم دلچسپی کی وجہ بھی وفاقی کنٹرول ہے۔ گڈانی یارڈ میں کرپشن آسمان تک پہنچی ہوئی ہے۔ اس لئے تمام حفاظتی انتظامات کے بغیر مالکان جہاز توڑنے کی اجازت دیتے ہیں اور متعلقہ حکام کو نظر انداز کرتے ہیں کیونکہ رشوت بڑے بڑے لوگوں تک بر وقت پہنچ جاتی ہے۔ گزشتہ واقعہ بھی اس لئے ہوا کہ جہاز میں تیل بھرا ہوا تھا۔ اس کو صاف کئے بغیر گیس ویلڈنگ سے جہاز کی کھٹائی بلا تاخیر شروع ہوئی جس کی وجہ جہاز کو خوفناک آگ نے اپنی لپیٹ میں لے لیا اور اس میں 27افراد ہلاک اور 50سے زیادہ زخمی ہوگئے۔ چند روز گڈانی یارڈ میں کام بند رہا۔ بعد میں معاملات خوش اسلوبی سے اچانک طے پاگئے۔ ملزم اور مالک گرفتار ہونے سے بچ گئے کیونکہ مقامی انتظامیہ ان کو گرفتار کرنے کا تصور تک نہیں کرسکتی تھی۔ اس لئے ان کی گرفتاری سے پہلے گڈانی یارڈ میں کام دوبارہ شروع ہوگیا۔ ان تمام لاوارثوں کو مکمل مالی امداد نہیں ملی۔ بلوچستان کے تین مقامی مزدور تو ویسے ہی لاوارث صوبے سے تعلق رکھتے تھے اس لئے ان کو نہ معاوضہ دیا گیا اور نہ مالک جہاز کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔ کے پی کے اور پنجاب سے آنے والے مزدوروں کے لواحقین کو کوئی معاوضہ نہیں دیا گیا۔ اب کے بار جس جہاز میں آگ لگی وہ صدر شپ بریکرز ایسوسی ایشن کا ہے۔ معلومات کے مطابق دیوان رضوان جائے حادثہ پر موجود تھے۔ اطلاع ملنے پر انہوں نے فرار ہونے کی کوشش کی۔ گڈانی سے حب چوکی پہنچ گئے جہاں سے پولیس نے ان کو فوری طور پر گرفتار کرلیا۔ گزشتہ جہاز کا مالک مفرور رہا۔ اس جہاز کا مالک گرفتار ہوا۔ گرفتار مالک جہاز کے ساتھ بھی ضابطے کی تمام کارروائیاں مکمل ہوں گی اور ان کو ریاستی تحویل میں کسی گزند کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ جتنی زیادہ وہ زیر حراست رہیں گے اتناہی واقعے کے سنگین نوعیت کے ہونے کا ان کو احساس ہوگا اور وہ اسی مناسبت سے اعلیٰ اور بالا حکام کا خیال رکھیں گے۔ گزشتہ واقعہ نے ہی ثابت کردیا ہے کہ مالک کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی اور بغیر گرفتاری کے وہ سستے ہی میں چھوٹ جائیں گے۔ فی الحال مزید اطلاعات کا انتظار ہے۔ موجودہ جہاز پر 100کے لگ بھگ مزدور کام کررہے تھے ان میں سے 6 ہلاک ہوئے، 50سے زائد مزدوروں کو بچالیا گیا اور ابھی بھی چند ایک مزدور لاپتہ ہیں۔ ہم یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ چونکہ اسلام آباد گڈانی شپ یارڈ کو کنٹرول کرتی ہے، اربوں روپے ٹیکس وصول کرتی ہے تو یہاں پر حفاظتی انتظامات کیو ں نہیں کرتی جبکہ بلوچستان حکومت کو سالانہ صرف چند لاکھ روپے ملتے ہیں۔ گڈانی کی آمدنی کا کم سے کم دس فیصد حصہ یہاں پر حفاظتی انتظامات پر خرچ ہونا چاہئے۔ ماحولیات کے ماہرین دن رات گڈانی میں موجود رہیں اور اس بات کی یقین دہانی کرائیں کہ قوانین کی خلاف ورزی نہیں ہورہی ہے اور حادثات کی صورت میں فائر بریگیڈ کو کراچی سے نہ بلانا پڑے، ریسکیو ٹیم ہر وقت گڈانی میں موجود رہے بلکہ ان تمام معاملات کا واحد حل یہ ہے کہ یہاں سے حاصل ہونے والی تمام آمدنی حکومت بلوچستان کو دی جائے۔ سینکڑوں میل دور اسلام آباد سے حکمرانی کا طریقہ کار ختم کیا جائے او رتمام سہولیات کی فراہمی کی ذمہ داری مقامی انتظامیہ کو دی جائے۔ ہم صوبائی حکومت سے گزارش کرتے ہیں کہ اس معاملہ پر وفاق سے مذاکرات کرے اور گڈانی شپ یارڈ کے انتظامی اختیارات کے ساتھ ساتھ اس کی تمام آمدنی صوبائی حکومت کے حوالے کی جائے۔