|

وقتِ اشاعت :   January 17 – 2017

جب بھی ملک میں تاجروں کی حکومت آتی ہے تو تاجر حضرات کسی نہ کسی بہانے ریاستی خزانے سے اربوں روپے لوٹ کر لے جاتے ہیں۔ یہ امداد ان ارب پتی تاجروں کو صرف اور صرف تاجروں کی حکومت کے دوران ہی ملتی ہے۔ فوجی حکومت میں شاذ و نادر ہی ان کو اس طرح کی امداد ملتی ہو۔ پی پی پی اور دیگر پارٹیوں سے تاجر اور ارب پتی دولت مند حضرات نفرت کرتے ہیں کیونکہ ان پر غریبوں یا درمیانہ طبقے کا اثر و رسوخ تاجر لیگ سے زیادہ ہوتا ہے۔ تاجر لیگ صرف اور صرف تاجروں اور دولت مندوں کے مفادات کا نگراں ہے۔ دوران الیکشن یہی طبقہ اربوں روپے تاجر لیگ کو الیکشن فنڈ فراہم کرتے ہیں اور آخر کار صرف اور صرف دولت کے بل بوتے الیکشن میں کامیابی حاصل کرلی جاتی ہے۔ لاہور کا ضمنی الیکشن ایک زندہ مثال ہے جہاں پر تاجر لیگ نے دو ارب روپے صرف ایک قومی اسمبلی کی نشست پر خرچ کرکے مدمقابل کو شکست دی اور قومی اسمبلی کے اسپیکر کو دوبارہ منتخب کروالیا۔چند روز قبل ایک سرکاری اشتہار میں یہ اعلان کیا گیا کہ برآمدکنندگان کو 110ارب روپے کی سرکاری خزانے سے خیرات دی گئی ہے جس پر حکومت نے خوشی کا اظہار کیا ہے کہ برآمدکنندگان زیادہ دولت کمائیں گے اپنے لئے اور اپنے خاندان کے لئے ۔اس کے برعکس افسوسناک پہلو یہ ہے کہ جب بلوچستان کے وزیراعلیٰ نے پسماندہ صوبے کی مجموعی ترقی کے لیے ایک پیکج کا مطالبہ کیا تھا تو نازک مزاج وزیر خزانہ اسحاق ڈار جو ملک کے نائب وزیراعظم مشہور ہیں ناراض ہوئے اور نفرت سے وزیراعلیٰ بلوچستان کو حکم دیا کہ وہ قومی مالیاتی کمیشن کا رخ کریں۔ دوسرے الفاظ میں انہوں نے بلوچستان جو آدھا پاکستان ہے اور پسماندہ ترین صوبہ ہے کوکسی قسم کی مالی امداد سے انکار کیا۔ تاجر لیگ خزانہ صرف مخصوص لوگوں اور طبقات کے لئے ہے، بلوچستان سے غربت، ناداری، افلاس، بھوک ختم کرنے کے لیے نہیں ہے ۔تمام سیاسی پارٹیاں کو تاجر لیگ کی اس عمل کی مذمت کرنی چاہئے کہ وہ برآمدکنندگان کو 110ارب روپے کی خطیر امداد کیوں دے رہا ہے اس کو روکا جائے اور تاجر لیگ اور وزیراعظم سے اس امتیازی سلوک پر جواب طلب کیا جائے۔