|

وقتِ اشاعت :   March 24 – 2017

یہ 1992 کے آخری دنوں کی بات ہے وزیر اعظم نواز شریف گودار فش ہاربر اور منی پورٹ کے افتتاح کے لیے گوادر گئے تھے دوران تقریب کچھ خواتین نے اسٹیج کے اردگرد قناتوں کے باہر چلا چلا کر وزیر اعظم کے سامنے اپنی شکایات پیش کرنا چاہیں۔ نواز شریف نے عوامی لیڈر ہونے کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان قناتوں کو ہٹاکر خواتین کو آگے لانے کا حکم دیا یہ خواتین نہ صرف اندر آگئیں بلکہ اسٹیج پر چڑھ گئیں، معلوم نہیں یہ بدنظمی تھی یا اور کوئی وجہ فوری طور پر جلسہ ختم کردیا گیا۔ اس واقعے کی چشم دید گواہ انور سعید صدیقی نے اس صورتحال کو اپنی کتاب ریڈیو پاکستان میں تیس سال میں تحریر کیا ہے۔ ان خواتین کے مطالبات کیا ہوسکتے تھے اس کا جواب آج بھی اگر کوئی گوادر جائے تو مل سکتا ہے۔ اس احتجاج کے تقریباً 25 سالوں بعد گزشتہ ماہ میرا گوادر جانا ہوا، پانی، بجلی کی عدم دستیابی ، صحت اور تعلیم کے سہولیات کے فقدان کی شکایت ہر شہری کے زبان پر تھی۔گزشتہ 25 سالوں میں ملک کے سیاسی، معاشی حالات خارجہ اور داخلی پالیسیوں میں کئی کلیدی تبدیلیاں آچکی ہیں، جس کا ایک محرک گودار کی بندرگاہ بھی ہے۔ جس سے حکومت پاکستان نے مستقبل کی تمام امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں لیکن اگر کچھ نہیں بدلا تو وہ ہے گوادر کے عوام کی قسمت۔ گوادر کے اوائلی رہائشیوں میں ہندو کمیونٹی اور اسماعیلی کمیونٹی کے لوگ شامل ہیں، شہر کا قدیم بازار آج بھی اپنے شاندار ماضی کی داستان بیان کرتا ہے، جس کی شکل و صورت سندھ کے کسی دیہی شہر کے بازار جیسی ہے، ہندو کمیونٹی کے مندر کچھ منہدم اور کچھ زبون ہوچکے ہیں تاہم اسماعیلی کمیونٹی کا جماعت خانہ آج بھی موجود ہے یہ دوسری بات ہے کہ چند ایک گھروں کے علاوہ باقی سب پر تالے لگے ہوئے ہیں۔ یہ گھر بھی سندھ کے صحرائی علاقے تھر کے ڈیپلو شہر کا تاثر دیتے ہیں جہاں کی میمن برادری تعلیمی میدان میں زندگی کی کامیابی حاصل کرتی گئی اور اپنے آبائی شہر سے دور ہوگئی۔ایک آغا خانی نے ہمیں بتایا کہ ان کے روحانی پیشوا سر سلطان نے پیشن گوئی کی تھی کہ یہ شہر ایک دن بڑی اہمیت حاصل کرے گا اس کو نہ چھوڑنا بقول ان کے یہ بات سچ ثابت ہوچکی ہے۔ موجودہ وقت عالمی قوتوں کی نظر گوادر پر ہے۔گوادر شہر میں داخل ہونے سے تقریباً 10 سے 15 کلومیٹر پہلے روڈ کے دونوں اطراف میں صنعتی اور رہائشی منصوبوں کے علاوہ جیمخانہ سے لیکر تبلیغی اجتماع تک کے لیے زمین مختص نظر آئیگی اور شہر میں داخل ہوتے ہی ہیوی ٹرک سامنے آجائیں گے جن پر چینی زبان پر کچھ تحریر تھا جبکہ چپے چپے پر ریئل اسٹیٹ کی دکانیں موجود ہیں۔جن کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ سب مقامی لوگوں کی ہیں۔چین پاکستان اقتصادی راہداری کی وجہ سے اس شہر کو سیکیورٹی کے حوالے سے اہمیت حاصل ہے اس لیے کراچی سے گوادر تک کوسٹ گارڈز، ایف سی، لیویز اور پولیس کی درجن سے زائد چیک پوسٹوں سے گزرکر یہاں پہنچنا پڑتا ہے، ہمراہ اگر خواتین ہیں تو پوچھ گچھ مختصر رہتی ہے اور صرف شناختی کارڈ دیکھ کر آگے جانے کی اجازت مل جاتی ہے۔گوادر کی موجودہ وقت تک مرکزی تجارت مچھلی ہے، ماہی گیروں کے پاس چھوٹی بوٹس ہیں جن پر وہ دس میل کے اندر شکار کرلیتے ہیں کیونکہ یہ سمندر گہرا ہے اس لیے انہیں زیادہ آگے نہیں جانا پڑتا۔ کراچی کی حبیب یونیورسٹی کے استاد حفیظ جمالی نے ان ماہی گیروں پر پی ایچ ڈی کی ہے، انہوں نے بتایا کہ ان کشتیوں کی تعداد 4 ہزار کے قریب ہے اور ہر کشتی پر 4 سے 5 ملازم ہوتے ہیں۔ماضی میں ماہی گیری ایک منافع بخش کاروبار تھا لیکن اب اس سے ماہی گیروں کا گزربسر مشکل سے ہوتا ہے۔ شکار سے واپس آنے والی ان کشیوں کو میں نے خود دیکھا تھا جس میں صرف چھوٹی چھوٹی مچھلیاں تھیں۔ایک ماہی گیر نے بتایا کہ جس طرح ہر زمین پر کھیتی باڑی نہیں ہوسکتی ویسے ہی سمندر کے ہر جگہ مچھلی نہیں ہوتی ورنہ گوادر کے علاوہ پسنی ، اورماڑہ اور جیونی میں بھی اتنی تعداد میں مچھلی پکڑی جاتی۔ گودار اس علاقے میں واحد جگہ تھی جہاں وافر مقدار میں مچھلی موجود تھی لیکن جیسے جیسے سمندر میں بندرگاہ اور جیٹی بنتی گئیں مچھلی پیچھے جاتی گئیں اور ماہی گیر غربت کی طرف دھکیلتے گئے۔شہر میں کھانے پینے کی اشیا میں اکثریت ایران سے آنے والی چیزوں کی ہیں، جن کے بارے میں مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ سستی اور معیاری ہیں جبکہ پیٹرول بھی ایران سے ہی آتا ہے۔ یہ سن کر حیرانی ہوئی کہ مکران ڈویژن کو بجلی بھی ایران سے فراہم کی جارہی ہے۔ ایران 70 میگاواٹ بجلی فراہم کرتا ہے جس میں سے 15 میگاواٹ گوادر شہر کو ملتے ہیں جس کی کھپت 20 میگاواٹ سے زائد ہے۔ شہر کے مرکزی بازار اور آس پاس میں نئے اور پرانے جنریٹرز اور سولر پلیٹس کی کئی دکانیں موجود ہیں، اس پھلتے پھولتے کاروبار کی وجہ یہ ہے کہ گرمی میں شہر میں بجلی کی قلت کی وجہ سے بارہ سے پندرہ گھنٹے تک لوڈشیڈنگ رہتی ہے اس کا حل متبادل ذرائع ہے۔ یہ صورتحال دیکھ کر یقیناً یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ گوادر کو عالمی طرز اور سطح کا شہر بنایا جارہا ہے اس کے لیے بجلی کہاں سے آئیگی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حکومت کے پاس 150 میگاواٹ کے کوئلے پر چلنے والے دو بجلی گھر ہیں جو ابھی منظوری کے مراحل میں ہیں۔گزشتہ ماہ جب ہم گوادر میں موجود تھے تو پانی کی فراہمی کے حوالے سے لوگ خوش تھے کیونکہ بارشوں کی وجہ سے قریبی آنکڑا ڈیم میں دو ماہ کا پانی جمع ہوچکا تھا جو کئی سال پہلے اس وقت تعمیر کیا گیا تھا جب شہر کی آبادی ہزاروں میں تھی۔ یہ ڈیم جب سوکھ جاتا ہے تو تربت سے پانی کے ٹینکر منگوائے جاتے ہیں جو ایک ہزار گیلن کا ٹینکر 15 ہزار رپے میں پڑتا ہے۔ حکومت نے پانی کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے سمندر کے پانی کو صاف کرنے کا پلانٹ لگانے کا منصوبہ بنایا ہے لیکن اس کے لیے بھی بجلی درکار ہے جو دستیاب نہیں۔ بغیر پانی اور بجلی کے کون سی صنعت لگ سکتی ہے یا کونسا میگا سٹی بن سکتا ہے۔ اس کا جواب صرف فائیلوں میں منصوبوں کی صورت میں موجود ہے۔ ہمارے گوادر جانے کی وجہ وہاں کا کتب میلہ تھا، جہاں خواتین کی بھی بڑی تعداد شرکت کے لیے آئی تھی۔ جو شکایت کر رہی تھیں کہ یہاں صحت کے نام کی کوئی سہولت نہیں گوادر ڈسٹرکٹ ہسپتال میں انیستھیالوجسٹ ریڈیو لاجسٹ ، بچوں کے بیماریوں کے ماہر تو بالکل ہی نہیں۔گائناکالوجسٹ بھی کبھی کبھی دستیاب ہوتی ہے۔ وہ بھی اس قدر مریضوں کی تعداد دیکھ کر فرار ہوجاتی ہے کیونکہ روزانہ سو سے ڈیڑھ سو کے قریب مریضہ آتی ہیں۔ اس لیے یہاں کے لوگ مریضوں کو 8 گھنٹے کا سفر کرکے کراچی یا پھر قریبی شہر تربت لیکر جاتے ہیں۔ہماری موجودگی کے دوران صحت کے حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ بھی پیش آیا۔ شہر میں بڑی تعداد میں چکن گونیا کی بیماری موجود تھی کئی درجن لوگوں میں اس کی موجودگی کی تصدیق بھی ہوئی تھی۔ مقامی حکام نے بالاحکام کو آگاہ کیا۔ کوئٹہ سے یہ بالا حکام پہنچے اور ہدایت کی کہ بات باہر نہ نکلنے پائے کیونکہ اس سے بندرگاہ پر موجود چینی شہریوں میں خوف پیدا ہوگا اور سرمایہ کار نہیں آئیں گے۔ تاہم نیشنل پارٹی سے وابستہ ٹاؤن چیئرمین نے اس کو مسترد کیا اور شہر میں اسپرے کراکے یہ بات میڈیا کے سامنے کہہ دی کہ ہمارے لوگ بیماری میں جل رہے ہیں انہیں سرمایہ کاروں کی فکر ہے۔ کتب میلے کے دوران معلوم ہوا کہ پورے بلوچستان میں بلوچی زبان کے اکثر ادبی میگزین گوادر اور آس پاس سے کے شہروں سے نکلتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ ادب لکھنے اور پڑھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ پروفیسر حفیظ جمالی نے بتایا کہ بلوچستان میں جو لوئر کلاس اور مڈل کلاس کی سیاسی تحریک اٹھی تھی اس کی بنیاد بھی مکران بیلٹ سے پڑی تھی کیونکہ یہاں کسی سردار یا قبیلے کا اثرو رسوخ نہیں تھا۔ بلوچستان میں جو قبیلائی بالادستی سے نکل کر لوگوں نے اپنے نام کے ساتھ بلوچ لکھوانا شروع کیا وہ ایک شعوری اقدام تھا جس کے بعد ہر کوئی خود کو بلوچ کھلوانے میں فخر محسوس کرتا جس سے طبقاتی تفریق کمزور ہوگئی تھی لیکن اب یہ رجحان کمزور ہو رہا ہے اب آپ کو لوگوں کے نام کے ساتھ قبیلائی ذات نظر آتی ہے۔ کتب میلے کے شرکاء کو بندرگاہ پر چینی حکام نے رات کے کھانے پر مدعو کیا، نامور صحافی محمد حنیف جو بھی اس میلے میں شریک تھے ان کا مشورہ تھا کہ چل کر دیکھتے ہیں یہ کیا کرتے ہیں اور رہتے ہیں کیسے ہیں، روزنامہ ڈان سے وابستہ میری دوست صحافی سحر بلوچ اور ہم نے بھی حامی بھری ۔سیکیورٹی کلیئرنس کے بعد بندرگاہ کی حدود میں داخل ہوئے۔ بلبوں کی پیلی روشنی میں دیوار پر پاکستان چین دوستی لکھا تھا ساتھ میں دونوں ملکوں کے جھنڈے بھی بنے ہوئے تھے نیچے انگریزی میں ایک عبارت لکھی تھی جس میں کہا گیا کہ ’’ پیسے بنا انسان، کمان بنا تیر ہے۔ ان الفاظ میں خوبصورتی ہو نہ ہو لیکن مفاد پرستی ضرور نظر آتی ہے۔ عمارت کے اندر ای بائیک اور ای کار یعنی الیکٹرک پر چلنی والی گاڑیوں جن سے دھواں نہیں نکلے گا بنانے والی کمپنیوں سے معاہدے کی تقریب جاری تھی۔ جس کے تحت یہ کمپنیاں گوادر میں فیکٹریاں لگائیں گیں۔ ہمیں بتایا گیا کہ یہ گوادر کو گرین سٹی بنانے کے منصوبے کا حصہ ہے۔ دماغ میں یہ سوال اٹھا کہ لوگوں کو پینے کے لیے پانی نہیں درختوں کا نام و نشان نہیں یہ سٹی گرین کیسے بنے گا۔اب ایسا بھی نہیں کہ گوادر کو حالیہ برسوں میں کچھ بھی نہیں ملا۔ کراچی کا وہ سفر جو دو دہائیاں پہلے تک 36 سے 48 گھنٹوں میں طے کیا جاتا تھا اب سڑکوں کی تعمیر کی وجہ سے 8 سے 9 گھنٹوں میں کیا جاتا ہے۔ گوادر کے ساحل کو کراچی کے سی ویو طرز پر بنایا گیا ہے۔ جہاں شام کو لوگ چہل قدمی کرتے ہیں جبکہ شام کو درجنوں بچے فٹبال کھیلتے ہیں جو عالمی فٹبالروں کی شرٹس پہنی ہوئی ہوتی ہیں۔ ان کے لیے ایک ریڈی میڈ گراؤنڈ بھی تعمیر کیا گیا ہے اس کو بھی پانی کی ضرورت ہوگی۔