|

وقتِ اشاعت :   April 10 – 2017

بلوچستان کو اگر قدیم تہذیب اور ثقافت کا مسکن کہا جائے تو غلط نہ ہوگا،مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ اس شعبہ کی جانب کبھی خاطرخواہ توجہ ہی نہیں دی گئی،اس شعبہ کی پسماندگی اورزبوں حالی کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ 50کی دہائی کےبعد نہ تو صوبے میں نئی آرکیالوجیکل سائٹس کے لئے کوئی سروے کیاگیا اور نہ ہی اب تک صوبے میں تقریباً نو ہزار سال پرانی تہذیب مہرگڑھ اور نیندو ڈمب کےعلاوہ تلاش کی گئی 28سائٹس میں سے کسی پر مخفی ورثہ اور نواردات تلاش کئے گئے۔ اس شعبے میں ارباب اقتدار کی دلچسپی کےاندازے کےلئے یہ حقیقت بھی کافی ہے کہ ڈھاڈر،کچھی کےعلاقے مہرگڑھ میں بھی اب تک صرف ایک چھوٹے سے حصے پر ہی کام کیاجاسکاہے۔ اس حوالے سے بلوچستان سے تعلق رکھنےوالے ادیب ،محقق اوردانشور افضل مراد نےجیو نیوز کوبتایا کہ آثار قدیمہ کا شعبہ بدقسمتی سے کبھی ہماری ترجیح نہیں رہا،ان کا کہناتھا کہ ہم تو مہر گڑھ جیسی تہذیب کے امین ہیں لیکن اب تک صحیح معنوں میں اسے پروجیکٹ نہیں کرسکے،اس پرتھوڑابہت کام کیاگیا،مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس پرمزید بہت کام ہوسکتاہے۔ محکمہ آرکائیواورآرکیالوجی کےسابق ڈائریکٹر اورمعروف ادیب نورخان محمد حسنی کا کہناہےکہ ہم نے مہرگڑھ کےورثہ کو اتنی اہمیت نہیں دی جتنی کہ اسے دی جانی چاہئےتھی،یہ ایک ایسا شعبہ ہے ، جس سے بلوچستان اور پاکستان کابہترین سافٹ امیج سامنے لایاجاسکتاہےاور یہ سیاحت کےفروغ میں بھی ممدودومعاون ثابت ہوسکتاہے۔ اس حوالے سے یہ کہنا برمحل ہوگا کہ مہرگڑھ کےورثہ کی اہمیت دنیا تو جانتی ہے مگر شاید ہمارے ارباب اختیار اس سے اب تک بے خبر ہیں۔ دوسری جانب فرانس سے ماہرین یہاں آئے اور کام کرکےچلے گئے اور رپورٹس کےمطابق شاید کچھ نوادرات بھی اپنے ساتھ لے گئے جو وہاں کےمیوزیم کا حصہ ہیں مگر ہم اب تک مہرگڑھ کےورثہ کےتحفظ کےلئے کوئی اقدامات نہ کرسکےہیں ۔ کوئٹہ کےمیوزیم کی کسمپرسی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس کی اپنی کوئی عمارت ہی نہیں ہے ،یہی وجہ ہے کہ یہ میوزیم ا پنے قیام سے اب تک ایک سے دوسری عمارت میں عارضی طور پر منتقل ہوتارہاہے،حالانکہ گذشتہ چند سال سے میوزیم کی عمارت کا منصوبہ ضرور زیرغور ہے،مگرمنصوبہ کب پورا ہوگا؟ کوئی نہیں جانتا، اس وقت محکمہ آرکائیو کی عمارت میں عارضی طور پر قائم میوزیم میں ایک سو کےقریب نواردات نمائش کے لئے رکھے گئے ہیں اور صوبے کے تقریباً 17ہزارنوادرات کراچی کے قومی میوزیم میں رکھی گئی ہیں ۔۔ اس حوالےسےآرکائیو/ میوزیم کےحکام کا کہناتھا کہ اس وقت ان کے پاس ایک سو کے قریب نواردات ہیں جو مہرگڑھ سے اور نیندو دمب کےعلاقوں سے ملے،ان نواردات کےعلاقہ میوزیم میں قدیم رسم الخط میں تحریر قرآنی آیات اور نسخےبھی نمائش کےلئے رکھےگئےہیں۔ متعلقہ حکام کے مطابق اس وقت میوزیم میں جگہ کا مسئلہ ہے، مناسب جگہ نہ ہونے کےباعث ہم اپنے 17 ہزار کےقریب نواردات یہاں ڈسپلے نہیں کرسکتے،ہاںجب ہمیں میوزیم کےلئے جگہ مل جائے گی اور ہماری اپنی عمارت بن جائےگی تو ہم ان نواردات کو کراچی سے لاکر اچھی طرح سے ڈسپلے کرسکیں گے،لیکن ایسا کب تک ہوگا اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔