|

وقتِ اشاعت :   April 22 – 2017

چند سال قبل ایک سرد شام سیڑھیوں سے اترتے ہوئے ایک کمزور سے نوجوان کو میڈیا کے نمائندوں نے گھیر لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کے گرد گھیرا تنگ ہوگیا۔نوجوان کیمروں کی جلتی بجھتی روشنیوں سے کچھ گھبرا سا گیا۔گھبراہٹ کے اثرات اس سرد موسم میں اس کے ماتھے سے پسینہ ٹپکنے والے ایک قطرے سے محسوس کیے جاسکتے تھے۔دس سیکنڈ میں سات بار گلا تازہ کرنے کے بعد اس نے کانپتی آواز میں ایک ایک کرکے میڈیا کے نمائندوں کے سوالات کے جوابات دینا شرو ع کیے۔شاید کچھ جوابات میڈیا کے نمائندوں کے لیے تسلی بخش نہ تھے۔ پی بی سی کی نمائندہ مائیک تھام کر کھسک کر کہنی سے دوسرے نمائندوں کو ذرا پیچھے دھکیلتے ہوئے بڑی پھرتی سے آگے بڑھ کر تیز مگر صاف آواز میں سوالات کا حملہ کر ڈالا ، نوجوان پہلے ہی بڑی مشکل سے وکٹ تھامے کھڑا تھا مزید سوالات کی گیندوں سے خود کو محفوظ رکھتے ہوئے ایک بار پھر اس نے گلا تازہ کیا جینز پینٹ سے ہاتھ نکالتے اور کبھی کیمرے اور کبھی پی بی سی کی نمائندے کی جانب دیکھتے ہوئے چبھتے سوالات کے سوچ سمجھ کرجوابات دینا شروع کیے۔پی بی سی کی نمائندہ نے سوال پوچھا کہ آج آپ نے ملکی سطح کا ایک بڑا سول ایوارڈ حاصل کیا اس سے پہلے بھی آپ نے یوتھ ایوارڈ، تمغہ ء استقلال، بیسٹ اچیومنٹ ایوارڈ ، ٹیلنٹ ایوارڈ ،بیسٹ اسکاؤٹ ایوارڈ اور دیگر ایوارڈز کی ایک لمبی لسٹ ہے آپ کے ایوارڈز کی اور اتنی کم عمری میں پھر ایک ملکی سطح کا ایوارڈچہرے پر حیرانگی کے اثرات کو بڑھا کر ، آنکھوں کے اشاروں اور تیز تیز الفاظ کو پیش کرکے خاتون نے پھر ایک بات کہہ دی کہ لگتا ہے آپکے ان ایوارڈز کے حصول میں آپ کی محنت کے ساتھ ساتھ دیگر وجو ہات بھی ہوسکتی ہیں جیسے آپ کا تعلق کسی ملین مائر فیملی کے ساتھ یا آپ کسی بیورو کریٹ ،ڈیموکریٹ کے بیٹے یا پھر کسی بڑے پیر صاحب کے مرید ہیں جن کی برکت سے آپ پر ایوارڈز کی بارش ہوئی ۔نوجوان کانپتے ہاتھ کوٹ کی جیب میں ڈال کر محو گفتگو ہوا کہ آپ یہ جان کر حیران ہونگی آپ کے سامنے کمزور گندمی رنگ والا نوجوان کھڑا ہے وہ کسی بڑی صنعت کار،وزیر، مشیر کا بیٹا نہیں بلکہ کوئٹہ کی مختلف سڑکوں پر پتھر توڑنے والے ایک مزدور کا بیٹا ہے۔جس نے اپنے ماتھے پر پسینہ سجاکر اور ٹھنڈی ہواؤں کا مقابلہ کرکے اپنے ہاتھوں پر بننے والے چھالوں کو محنت کا نشان بناکر سخت گرمی میں انتھک مشقت کرکے مجھے گرم نوالہ کھلایا۔نوجوان نے گہری سانس کے ساتھ ہی یک دم سے کہا پتہ ہے میڈم میں نے کبھی عید پر نئے کپڑے نہیں پہنے بچپن میں جب عید آتی امی اسکول کے یونیفارم کا کپڑا خریدتے اور ساتھ ہی ایک وارننگ بیٹا یہ عید کے کپڑے بھی ہیں اور اسکول کی وردی بھی اور اس جوڑے کو اگلی عید تک چلانا ہے۔عید پر بچوں کو مختلف رنگ برنگی کپڑے پہنے دیکھ کر ایک حسرت ہوتی کہ میں بھی کبھی عید پر دوسرے بچوں کی طرح اپنے پسند کے کپڑے پہنوں۔وقت گزرتا گیا 2005ء میں زلزلہ ہوا ملک بھر سے انسانیت کے درد رکھنے والے اور اس درد کو محسوس کرنے والے افراد وہاں گئے وہ نوجوان بھی متاثرین کی پکار پر لبیک کہہ کر وہاں بوائے اسکاؤٹس کی ٹیم کے ساتھ پہنچے کبھی ہزاروں جنازوں کو دیکھ کر تڑپ اٹھتے اور ہمت باندھ کر متاثرین کو تسلی دیتے تو کبھی ملبے تلے دبی لعشوں کو نکالتے نکالتے خود زندہ لعشیں بن جاتے۔زندگی کی پہلی عید انہوں عام کپڑوں کے سوا بوائے اسکاؤٹس کی وردی میں گزاری اور پھر 2012سے 2016تک بائیس عیدوں پر کبھی نئے کپڑے نہیں پہنے اور ہزاروں یتیموں اور غرباء و مساکین کو نئے کپڑے اللہ کے فضل و کرم سے پہنچائے۔میرا یہ سفر مشکل ضرور تھا ،کھٹن بھی تھا اور تکلیف دہ بھی مگر نا ممکن تو نہیں تھا۔کچھ عرصے شاید احساس کمتری کا شکار بھی رہا مگر جب جب غرباء ،مساکین اور معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کے پاس گیا ، جب کسی بے اولاد خاتون کو ماں کہہ کر پکارا ، کسی بے سہارا کے ہاتھ میں عصاء تھمایا ، کبھی کسی پیاسے کو چند گھونٹ پانی کے پلائے ،کسی یتیم بچی کے ہاتھ پیلے کرائے تو مجھے میرے کئی سال سے تنگ کرنے والے سینکڑوں سوالات کے جواب مل گئے۔ہمارے معاشرے میں رہنے والے مڈل کلاس لوگوں کی یہ سوچ بالکل غلط ہے کہ پیسہ زیادہ ہوگا یا اشیاء وافر مقدار میں ہونگیں تو تب ہی ہم کسی کی مدد کرسکتے ہیں۔معاشرے کے پسے ہوئے افراد کی مدد مڈل کلاس اور لوئر کلاس والے بھی بہتر طریقے سے کرسکتے ہیں۔اس کی بہت بڑ ی مثال عبدالستار ایدھی ہیں۔اگر کوئی شخص اپنے بچوں کے لیے مہنگے جوتے یا کپڑے خریدتا ہے اگر وہ تھوڑے سستے خریدے تو اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ دو تین غریب اور ضرورت مند بچوں کے لیے بھی خرید سکتے ہیں۔اگر معاشرے کا ہر فرد صرف 5روپے روزانہ اس نیت سے جمع کرے کہ وہ ضرورت مندوں کی مدد کرے گا اور انہیں ہاتھ پھیلانے سے بچائے گا توایک دن ایسا آسکتا ہے جب مہینوں ڈھونڈنے سے بھی کو ہاتھ پھیلانے والانہیں ملے گا۔ہم تو اس معاشرے کا حصہ ہیں جہاں خیرات مانگنے والوں کے انگوٹھوں اور انگلیوں کو چیک کیا جاتا ہے کہ کہیں یہ نشہ کا عادی تو نہیں مگر یہ نہیں سوچا جاتا کہ معاشرے کے ظلم و ستم کے شکار اس شخص کی یہ حالت اس کے بچوں کے پیٹ میں گندم کا کوئی دانہ گیا بھی ہوگا کہ نہیں۔ایک روٹی چرانے والے چور کو تو سرعام بھرے بازار میں میڈیا کے کیمروں کے سامنے جوتوں،مکوں،لاتوں،ڈنڈوں اور پتھروں سے مارا جاتاہے اور کبھی تو فرط جذبات میں آکر تیل چھڑک کر آگ لگا دی جاتی ہے ۔کیا کبھی یہ سوال نہیں ہوگا کہ دسترخوانوں پہ کئی انواع و اقسام کے کھانے سجتے اور آدھے سے زیادہ کھانے ضائع ہوکر ڈسٹ بین کے نظر ہو جاتے ہیں اور ساتھ والے گھر میں ماں ہانڈی میں پتھر ڈال کر ابلتے پانی میں چمچ ہلا ہلا کر بلکتے بچوں کو تسلی دی رہی ہوتی ہے کہ بچے صبر ابھی سالن پکنے والا ہے۔مردہ معاشرے میں زندگی کی امید کی کرن کو معاشرے کے وہ افراد روشن کرسکتے ہیں جنہوں نے زندگی کے کسی موڑ پر ان تکالیف کا سامنا کیا ہو۔اب ذرا سوچنے سے کام نہیں چلے گا بلکہ بہت سا سوچنا ہوگا اور بہت سے عملی کام کرنا ہونگے۔