|

وقتِ اشاعت :   May 17 – 2017

 
 
 

وزیر اعظم پاکستان چین کے دورے پر ہیں جہاں وہ سی پیک کے لئے طویل المدتی پروگرام پر عمل در آمد کا جائزہ لے رہے ہیں۔جس کا تعلق دونوں اطراف کی حکومتوں سے ہے جسے چین کے ڈویلپمنٹ بنک اور چین کے نیشنل ریفارم کمیشن نے ترتیب دیا ہیجو کہ 231 صفحات پر مشتمل ہے۔

یہ پروگرام انگریزی روزنامہ ڈان نے اپنی ویب سائٹ پر پہلی بار جاری کیا ہے۔پروگرام کے ذریعے اس منصوبے میں چین کی ترجیحات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ چین یہاں پر اگلے پندرہ سالوں میں کیا کرنا چاہ رہاہے۔اس سے پہلے یہ معلومات عام نہیں کی گئی تھیں۔

منصوبے میں کہا گیا ہے کہ چین کا صوبہ سنکیانگ اور یغر کا علاقہ اور تمام پاکستان اس منصوبے کا حصہ ہے۔ اس کی مزید تقسیم منصوبے کے مرکزی حصے کے طور پر کی گئی ہے جہاں پر سب سے زیادہ توجہ ہو گی جن میں چین کے علاقے کاشغر ، تمشاق، اتوشی ،اکتو اور پاکستان کے علاقوں میں اسلام آباد ، پنجاب ، سندھ ، بلوچستان ، خیبر پختونخواہ ، اور گلگت بلتستان شامل ہوں گے۔اس کے ‘‘ون بیلٹ ، تین راستے اور اور پانچ فنکشنل زون ہوں گے ’’۔جہاں سے تمام سامان کی رسد ہو گی۔

مثال کے طور پر چینی کمپنیوں کو ہزاروں ایکڑ زمین لیز پر دی جائے گی جس میں وہ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے کاشتکاری کریں گے پشاور سے کراچی تک تمام شہروں کی نگرانی کا بھر پور نظام وضع کیا جائے گا۔

جہاں پر تمام اہم جگہوں کی چوبیس گھنٹے وڈیو ریکارڈنگ کی جائے گی۔ملک میں فائیبر آپٹک بچھائی جائے گی جو صرف انٹر نیٹ کے لئے نہیں بلکہ اس کے ذریعے ٹیلی ویڑن کی نشریات بھی دکھائی جائیں گی جس میں چینی ثقافت سے روشناس کرانے کے لئے چینی میڈیا کے چینل اور ریڈیو بھی شامل ہوں گے۔

جس سے نہ صرف چینی معیشت بلکہ چینی اور پاکستانی ثقافتوں کو بھی ایک دوسرے کو سمجھنے میں مدد ملے گی اور پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا ایک وسیع ماحول پیدا ہو گا۔

پاکستان میں پہلے ہی کئی چینی کمپنیاں کام کر رہی ہیں مثال کے طور پر گھریلو اشیا بنانے والی کمپنی ہائیر ، چائینا موبائل ، ہواوے ٹیکنالوجی اور معدنیات کے شعبے میں چائینا میٹا لرجیکل کارپوریشن شامل ہیں۔

اس کے ساتھ ہی ٹیکسٹائل ، گارمنٹس ، سیمنٹ ،عمارتوں کا سامان ، کھاداور زرعی ساز و سامان بھی بنایا جائے گا۔اس مقصد کے لئے انڈسٹریل پارک اور سپیشل اکنامک زون بنائے جائیں گے۔جہاں پر پانی ،بجلی اور دیگر مطلوبہ سہولیات موجود ہوں گی۔

لیکن منصوبے کا سب سے اہم حصہ زراعت کا ہے حالانکہ سی پیک کا تصور ایک بھر پور صنعتی اور ٹرانسپورٹ کے ڈھانچے کا ہے جس میں پاور پلانٹس اور ہائی ویز بننے ہیں مگر ،منصوبے میں زراعت سے متعلق بہت سے منصوبے بھی شامل ہیں۔

 
زراعت
 
 
اس شعبے میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک ایک سپلائی چین ہے۔جس میں بیچ، کھادوں ،اور ادویات کی فراہمی کے لئے قرضہ جات بھی دیئے جائیں گے۔چینی کاشتکار اپنے فارم بنائیں گے جس میں فروٹس اور سبزیاں اگائی جائیں گی۔جن کو مارکیٹوں تک پہنچانے کے لئے ایک پورا نظام وضع کیا جائے گا۔

زراعت کے شعبے میں ہزروں کی تعداد میں چینی باشندے آئیں گے۔جس سے ترقی کے نئے در وا ہوں گے کیونکہ پاکستان میں آدھی پیداوار ترسیل کی سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے ضائع ہو جاتی ہے۔

زرعی کمپنیوں کو چین کی حکومت مالی مدد دے گی اور اس مقصد کے لئے مختلف وزارتیں اور چین کا ترقیاتی بنک بلا سود قرضے فراہم کرے گا۔چین اور پاکستان کے زرعی حکام ایک دوسرے سے باہم رابطوں میں رہیں گے۔ چین کی حکومت غیر ملکی سرمایہ کاروں کو رعاتی نرخوں پر قرضے دے گی۔

جنہیں بعد ازاں شراکتی منصوبوں کی شکل بھی دی جا سکے گی۔اس منصوبے کے تحت چین کے صوبیسن کیانگ میں لائیو سٹاک ، آبیاری اور بیجوں کی ورائیٹی کے حوالے سے تجربات سے پاکستان کو مستفید کیا جائے گا۔اس سے کاشغر صوبہ جہاں غربت زیادہ ہے وہاں روزگار کے مواقع بڑھیں گے۔

یہ صوبہ زرعی ہے جہاں جنگلات ، مال مویشی ،مچھلی کے کاروبار کی مالیت سالانہ پانچ ارب ڈالر تک ہے اور اس کی آبادی صرف چالیس لاکھ ہیجس کے لئے مواقع بڑھ جائیں گے۔

تاہم چینیوں کے لئے پاکستان کی زرعی مارکیٹ میں سرمایہ کاری کا مقصد زرعی اشیا کی بر مدات بڑھانا اور اور کاشغر کے علاقیکوترقی دینا ہے۔اس مقصد کے لئے سترہ مختلف منصوبوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔

جن میں این پی کے فرٹلائزر پلانٹ لگانا جس کی پیداواری صلاحیت آٹھ لاکھ ٹن ہو گی۔اسی طرح کمپنیوں کو فارمز کے لئے ٹریکٹر ز، اجناس کومحفوظ بنانے کی مشینری ،انرجی سیونگ پمپس، کھادوں اور بیج بونے اور فصل کاٹنے کے آلات خریدنے کے لئے قرضے دیئے جائیں گے۔

سکھر میں گوشت کی پراسیسنگ کا ایک پلانٹ لگایا جائے گا جس کی سالانہ پیداواری صلاحیت دولاکھ ٹن ہو گی۔اسی طرح دودھ کے پراسیسنگ پلانٹ بھی لگائے جائیں گے جن کی پیداواری صلاحیت دو دو لاکھ ٹن ہو گی۔

جدید زرعی فارم جو زیادہ تر پنجاب میں ہوں گے ساڑھے چھ ہزار ایکڑ پرقائم کئے جائیں گے۔پاکستان کے تمام بڑے شہروں کو ایک دوسرے سے منسلک کیا جائے گا تاکہ مصنوعات کی ترسیل میں آسانی ہو یہاں ویئر ہاؤس بھی تعمیر ہوں گے۔

جہاں پر فروٹ ، سبزیاں اور اجناس رکھی جائیں گی۔پہلے مرحلے میں اس قسم کے ویئر ہاؤس اسلام آباد اور گوادر میں تعمیر کئے جائیں گے۔اس کے بعد2026۔2030 کے درمیان کراچی ، لاہور اور پشاور میں بھی بنائیجائیں گے۔

اسد آباد ، اسلام آباد ، لاہور اور گوادر میں سبزیوں کے پراسیسنگ پلانٹ لگائے جائیں گے جن کی سالانہ صلاحیت دو ہزار ٹن ہو گی۔ دس ہزار ٹن کے فروٹ جوس اور جام پلانٹ اور دس لاکھ ٹن صلاحیت کے گندم ، دالوں اور چاول کے پراسیسنگ پلانٹ لگائے جائیں گے۔شروع میں ایک لاکھ سالانہ پیداواری صلاحیت کا کاٹن پراسیسنگ پلانٹ بھی لگایا جائے گا۔

چین زرعی ٹیکنالوجی کے ثمرات پاکستانیوں کو منتقل کرے گا اور اس مقصد کے لئے چینی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں زرعی شعبے میں لایا جائے گا جہاں وہ زراعت سے منسلک اپنی ٹیکنالوجی متعارف کراوائیں گے ،کھاد ، زرعی ادوایات کے کارخانے لگائیں گے۔

اس میں وہ اپنے پاکستانی شراکت داروں کے ساتھ مل کر بھی کام کریں گے۔پاکستانی زرعی مصنوعات کو دوسرے ممالک کی منڈیوں تک لانے کے لئے ایک میکنزم بنایا جائے گا۔

چینی شہریوں کو پاکستان کے مذہب ، روایات اور مقامی افراد کی عزت و احترام کے حوالے سے بتایا جائے گا تاکہ وہ یہاں کیلوگوں کے ساتھ مساوی اور ہم آہنگی کے ساتھ رہ سکیں۔

انہیں مقامی افراد کوروزگار دینے اور مقامی لوگوں کے ساتھ شراکت کے ساتھ کام کرنے کے لئے کہا جائے گا۔مزید کہا گیا ہے کہ چین کچھ ممالک کے ساتھ سیکورٹی امور پر مل کر کام کر رہا ہے تاکہ وہ وہاں اپنے شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنائے۔

 
صنعت
 
 

صنعت کے حوالے سے ملک کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔مغربی ، شمال مغربی ،وسطی اور جنوبی۔ہر زون میں مخصوص صنعتیں لگائی جائیں گی جن کے لئے صنعتی پارک بنائے جائیں گے جن میں سے کچھ کا ذکر ہے۔مغربی اور شمالی زون میں جن میں زیادہ تر بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے حصےآتے ہیں وہاں زیادہ تر کان کنی سے متعلق منصوبے ہیں۔

جن میں سونے اور ہیروں کی کانیں بھی شامل ہیں جن میں بہت سا کام ہونے والا ہے۔سب سے زیادہ کام ماربل میں ہے پہلے ہی چین پاکستانی ماربل کا سب سے بڑ اخریدار ہے جو سالانہ اسی ہزار ٹن ماربل پاکستان سے خریدتا ہے۔منصوبے کے تحت شمال میں گلگت ،کوہستان اور جنوب میں خضدار میں ماربل اور گرینائٹ کے بار ہ پراسیسنگ پلانٹ لگائے جائیں گے۔

وسطی علاقے کو ٹیکسٹائل، گھریلو اشیااور سیمنٹ کے لئے مخصوص کیا گیا ہے۔سیمنٹ پلانٹس کے لئے چار جگہوں کی نشاندہی کی گئی ہے جن میں داؤد خیل ، خوشاب ، عیسی ٰ خیل اور میانوالی شامل ہیں۔

پاکستان میں فی الحال سیمنٹ کی پیداوار اس کی ضروریات سے اضافی ہے گویا مستقبل کی ضروریات کو مد نظر رکھ کر یہ منصوبہ بندی کی گئی ہے۔جنوبی زون میں پیٹروکیمیکل ، لوہا ، سٹیل ،ہاربر انڈسٹری ،انجنئرنگ ، تجارت سامان کی ترسیل اور گاڑیاں بنانے کے کارخانے قائم کئے جائیں گے۔

یہاں چونکہ بندرگاہ ہو گی اس لئے اس قسم کی صنعتوں کے لئے موزوں جگہ ہے۔گاڑیوں میں چین کی جانب سے ابھی تک پاکستان میں کوئی کارخانہ قائم نہیں کیا گیا اس کی وجہ جاپانی گاڑیوں کی مقبولیت ہے اور ٹیوٹا ، ہنڈا اور سوزوکی گاڑیوں کی ہی فراہمی ہو رہی ہے۔

گوادر بھی جنوبی زون میں آتا ہے جس سے بلوچستان اور افغانستان کو منسلک کیا جائے گا۔اس لئے یہاں پر بھاری صنعتیں لگائی جائیں گی۔پہلے ہی کچھ چینی کمپنیاں یہاں سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔

کیونکہ یہ مرکزی حیثیت اختیار کرنے والا ہے اس کی بے پناہ جغرافیائی اہمیت ہے مشرق وسطی ٰ سے تیل کی سستی ترسیل یہاں سے ہو گی۔لوہا اور کوئلہ بھی جنوبی افریقہ اور نیوزی لینڈ سے یہاں آئے گا اور یہاں سے پارسیسنگ کے بعد مشرق وسطی ٰ اور جنوبی ایشیا کی باقی مارکیٹوں تک جائے گا۔

منصو بیمیں ٹیکسٹائل انڈسٹری کو بھی اہمیت دی گئی ہے۔سنکیانگ میں پہلے ہی ٹیسٹائل انڈسٹری اپنے عروج پر ہے۔چین پاکستان سے خام مال خرید کر سنکیانگ میں قائم گارمنٹس انڈسٹری کو فراہم کرتا ہے تاکہ کاشغر میں لوگوں کو روزگار ملے۔

فائبر آپٹکس اور نگرانی

 
 
جب سی پیک پر مزاکرات شروع ہوئے تھے تب سے یہ چینی حکومت کی ترجیح میں شامل تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان فائبر آپٹک بچھائی جائے۔
 

جب سی پیک کو 2013 میں دونوں ممالک کے درمیان ایک سڑک کے طور پر دیکھا جا رہا تھا اس وقت دونوں ممالک کے درمیان اس سلسلے میں ایک عرضداشت پر دستخط ہوئے تھے۔لیکن اب ایک عام فائبر آپٹکس سے بھی بہت زیادہ آگے تک معاملات جا چکے ہیں۔

پاکستان کے ساتھ چین کی فائبر آپٹک بچھانے کی کئی وجوہات ہیں ایک تو اس کی اپنی سب میرین کے لئے سٹیشن اور انٹر نیشنل گیٹ وے بہت محدود ہیں اس لئے اس کی نگاہیں مستقبل میں انٹر نیٹ ٹریفک پر ہیں۔

بالخصوص مغربی صوبوں کے لئے اس کی اشد ضرورت ہے اسی طرح چائینا ٹیلیکام برائے افریقہ کو یورپ تک توسیع دی جارہی ہے۔اس لئے اس میں کچھ سیکورٹی خطرات ہیں۔

پاکستان کے پاس اپنی انٹرنیٹ ٹریفک کے لئے چار سب میرین ہیں لیکن لینڈنگ کے لئے صرف ایک سٹیشن ہے اس لئے اس میں بھی سیکورٹی رسک ہیں۔اس لئے منصوبے کے تحت خنجراب سے اسلام آباد تک ایک تین سطحی کیبل بچھائی جائے گی۔

گوادر میں ایک سب میرین لینڈنگ سٹیشن بنایا جائے گا جسے سکھر سے منسلک کیا جائے گا۔جہاں سے اسلام آباد اور پاکستان کے دیگر بڑے شہروں تک اسے وسعت دی جائے گی۔اس کی بینڈوڈتھ بڑھنے سے ایچ ڈی ٹی وی ، ڈی ٹی ایم بی کی سہولیات میسر آئیں گی۔

یہ نہ صرف ٹیکنالوجی بلکہ ثقافتی پھلاؤ کا بھی سبب بنے گا۔چین اور پاکستان کو ثقافتی طور پر ایک دوسرے کے قریب آئیں گے دونوں ممالک کا میڈیا ایک دوسرے سے منسلک ہو جائے گا۔اور دونوں ممالک کی دوستی کا رشتہ پائیدار ہو گا۔مزید یہ کہ ا س کے ذریعے خنجراب کی سرحد کی مانیٹرنگ اور سیف سٹی منصوبے کی بھی نگرانی ممکن ہو سکے گی۔

سڑکوں اور بڑے شہروں میں بڑے بڑے سکینر نصب کئے جائیں گے جن سے دھماکہ خیز مواد کی نشاندہی کی جا سکے گی ،چوبیس گھنٹوں کی وڈیو ریکارڈنگ کی جائے گی۔نگرانی کے ذریعے خطرات کی نشاندہی کو کمانڈ سینٹر تک پہنچایا جائے گاجو اپنا رد عمل دے گا۔

پاکستان میں ایک پائیلٹ پراجیکٹ کے طور پر ایک سیف سٹی قائم کیا جائے گا بعد اس کو دیگر شہروں اسلام آباد ، لاہور ، کراچی اور ان شہروں تک پھیلایا جائے گا جہاں سیکورٹی خطرات ہوں گے۔

سیاحت اور تفریح

 
 

اس منصوبیکا ایک بہت اہم باب ساحلی پٹی پرسیاحت کے فروغ کے موضوع پرہے۔طویل ساحلی علاقے کو ایک مکمل تفریحی علاقے میں بدلنا ہے اور اس کے لئے پرآسائش کشتیوں کے لئے گودیوں کی تعمیر ،کروز کے لئے بندرگاہ،سٹی پارکس ،عوامی دلچسپی کے مقامات ، تھیٹرز، گالف کورسسز، ہوٹلز اورپانی کے کھیل شامل ہیں۔

یہ علاقہ کیٹی بندر سے جیوانی تک ہوگا جو کہ ایرانی سرحد سے پہلے ا?خری مسکن ہے۔ لیکن یہ سب کچھ کرنے کے لئے ابھی بہت سا کام کرنے کی ضرورت ہے۔

منصوبے کی تفصیلات حیران کر دینے والی ہیں۔ مثال کے طور پر گوادر میں بین الاقوامی سطح کا کروز کلب بنایا جائے گا جہاں سمندروں کی سیاحت کے شوقین افراد کو ایسے پرائیویٹ کمرے ملیں گے جن میں رہنے پر انہیں گمان گزرے گا کہ وہ سمندر میں رہائش پزیر ہیں اس میں مزیدآگے چل کر کہا گیا ہے کہ اس میں اسلامی ثقافت، تاریخی ثقافت، لوک ثقافت اور ا?بی ثقافت تمام کو ضم کر دیا جائے گا۔ بظاہر یہاں پر بھی مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔

اورماڑاکے لئے ایک الگ منصوبہ دیا گیا ہے جس میں علاقائی ثقافت کو نئے رنگ ڈھنگ سے سامنے لایا جائے گا۔کیٹی بندر کے لئے جنگلی حیات کے لئے جنگلی ماحول تجویز کیا گیاہے جس میں آبی حیات کے لئے اکیوریم اور جڑی بوٹیوں اور درختوں کے باغات بنائے جائیں گے۔کراچی کے مشرق میں سومیانی کی جانب بیچ ہوں گے جن کے ساتھ بنگلے ،کار کیمپ،گرم غسل خانے ،بیچ پر کھیل کود اور کھانے پینے کے مقامات وغیرہ شامل ہوں گے۔

یہ سب کچھ ممکن بنانے کے لئے کروڑوں روپے درکار ہوں گے :
چین سے ویزہ فری سیاحوں کی آمد اور ان کے لئے پاکستان میں سہولیات کا قیام ،لیکن یہاں یہ ذکر نہیں کیا گیا کہ پاکستانی سیاحوں کو چین میں کیا سہولیات ملیں گی۔

نقصان کا خدشہ

کسی بھی منصوبے میں سب سے اہم سوال اس کے لئے وسائل کی فراہمی کا ہوتا ہے۔ طویل مدتی منصوبہ جو کہ چینی بنک نے ترتیب دیا ہے بڑی عجلت میں معلوم ہوتا ہے کیونکہ ا س کے ساتھ پاکستان کا معاشی نظام ،حکومتی خسارہ ، کمرشل بنکوں کی حالت اور مجموعی طور پر پاکستان کی معاشی حالت مطابقت نہیں کھاتی۔

جب آپ پاکستان میں سرمایہ کاری کی مجموعی حالت کو دیکھتے ہیں تو یہ ایک بڑا اقدام نظر آتا ہے۔سب سے بڑ امسئلہ سیاسی استحکام کا ہے۔پاکستانی سیاست پر کئی عنصر غالب رہتے ہیں جن میں مذہب ، قبائل ، علاقے اور مغربی مداخلت بھی شامل ہے۔

حالیہ سالوں میں اس کی سیکورٹی کے حالات بھی بہت دگرگوں رہے ہیں۔دوسرا بڑا رسک مہنگائی ہے۔جو گزشتہ چھ سالوں اوسطاً 11.6 فیصد سالانہ تک پہنچ چکی ہے۔جس کا مطلب ہے کہ کسی بھی منصوبے پر اس کی لاگت کا تخمینہ اس کے منافع سے کئی گنا زیادہ ہو گا۔

بشکریہ ڈان
تلخیص و ترجمہ سجاد اظہر